بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جز ہے یا نہیں ؟ اور سبع مثانی میں سات آیات کس طرح ہیں؟ نماز میں قرات کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا


سوال

 آ پ کے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات لے رہا ہوں, اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ قرآن کریم میں "سبع آیات"  کا ذکر آیا ہے۔ ترجمہ اور تفاسیر میں "سبع آیات" سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں "سبع آیات" کے لفظی معنی سات آیات ہیں۔

پاکستانی پبلی کیشنز تاج کمپنی وغیرہ میں اگر دیکھا جائے تو پہلی آیت ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ چھٹی آیت ﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ  اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ﴾ اور ساتویں آیت ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ﴾ دکھایا گیا ہے ۔ ہمارے علماء کرام اور پیش امام حضرات بھی تلاوت کے دوران مذکورہ بالا چھٹی اور ساتویں آیات کی تلاوت میں اس حد تک وقفہ دیتے ہیں کہ سامع کو بھی یقین ہو جاتا ہے کہ یہی ترتیب ہے چھٹی اور ساتویں آیات کی ۔

 لیکن جب آپ کلامِ پاک کے دوسرے پبلی کیشنز یعنی سعودی عرب ، ترکی، ایران، مصر وغیرہ پر نظر ڈالیں تو سورہ فاتحہ کی ابتدا ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ سے ہوتی ہے۔ یعنی ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ پہلی آیت اور ﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ  اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ﴾ آخری اور ساتویں آیت دکھائی گئی ہے۔ مجھے بھی بذات خود یہی ترتیب بہتر لگتی ہے۔ اگر یہی ترتیب بہتر اور صحیح ہے تو ہمیں اس کی ترویج باقاعدگی سے کرنی چاہیے ۔ اس کے لیے کیا کوششیں ہو سکتی ہیں، یہ آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے! مجھے اس وقت بڑی تکلیف ہو تی ہے جب پیش امام نماز کی دوسری رکعت میں "اللہ اکبر" کے فوراً بعد بغیر کوئی وقفہ دیے "الحمد شریف" کی تلاوت شروع کرتا ہے ۔واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  کی تلاوت (سری ہی سہی) امام نے نہیں کی۔ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ امام صرف یہی جانتا ہے کہ سورہ فاتحہ کی ابتدا ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ سے نہیں بلکہ ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ سے ہوتی ہے۔

دیکھا جائے تو ہم لوگ کم علمی کی بنیاد پر گناہِ عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں جب سورہ فاتحہ کی پہلی آیت کو ہی حذف کرلیتےہیں۔ ہمیں ہر حال میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے؛ تاکہ قیامت کے روز اللہ کریم کے فضل و کرم کی وجہ سے ہم اپنی اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ فعل کی وجہ سے شرمندگی سے بچ سکیں۔

جواب

اس مسئلہ کی بنیاد اس پر ہے کہ  ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ سورۂ فاتحہ کا جز ہے یا نہیں ہے؟ تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ :

اس پر تمام اہلِ اسلام کا اتفاق ہے کہ  ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ قرآن میں سورۂ نمل کا جز ہے، اور اس بھی اتفاق ہے کہ  سوائے سورہ توبہ کے  ہر سورت کے شروع میں ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾لکھی جاتی ہے،  البتہ اس میں ائمہ مجتہدین کا اخؐتلاف ہے کہ ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ سورۂ فاتحہ یا تمام سورتوں  کا جز ہے یا نہیں ؟

ائمہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ  سورۂ نمل کے علاوہ  کسی اور سورت کا جز  نہیں ہے، بلکہ ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  ایک مستقل آیت ہے اور قرآن کریم کا جز ہے،  جو ہرسورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل اور امتیاز ظاہر کرنے کے لیے نازل ہوئی۔

  ان کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔۔۔ دلیل یہ ہے کہ "صحیح مسلم"  میں بروایتِ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) منقول ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورہ فاتحہ) میرے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے، نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے، اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے، اور جب وہ کہتا ہے ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف وثنا بیان کی ہے، اور جب بندہ کہتا ہے ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے، اور جب بندہ کہتا ہے ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے؛ کیوں کہ اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد وثنا کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعا و درخواست کا، اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی، پھر جب بندہ کہتا ہے﴿اِهدنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ﴾ (آخرتک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لیے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی۔

صحيح مسلم (1/ 296)
"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثاً، غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك» ؛ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قال الله تعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، ولعبدي ما سأل، فإذا قال العبد: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ [الفاتحة: 2] ، قال الله تعالى: حمدني عبدي، وإذا قال: ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ [الفاتحة: 1] ، قال الله تعالى: أثنى علي عبدي، وإذا قال: ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ ، قال: مجدني عبدي - وقال مرةً فوض إلي عبدي - فإذا قال: ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ [الفاتحة: 5] قال: هذا بيني وبين عبدي، ولعبدي ما سأل، فإذا قال: ﴿اِهدنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ  اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ﴾ [الفاتحة: 7] قال: هذا لعبدي، ولعبدي ما سأل".

 اس حدیث میں صلاۃ سے مراد سورہ فاتحہ ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سورہ فاتحہ نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے،  اور نصف اول کو بیان  فرماتے ہوئے  اللہ رب العزت نے خود ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ سے ابتدا  فرمائی۔  معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ  ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ سے   شروع ہوتی ہے ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  اس میں داخل نہیں ہے، ورنہ ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾سے شروع فرماتے۔

2۔۔۔اور ترمذی   میں   بسندِ حسن یہ روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایا:   قرآنِ مجید کی تیس آیتوں والی ایک  سورت ہے،  وہ اپنے پڑھنے والے کی شفاعت کرتی ہے یہاں تک کہ اس کی مغفرت کردی جاتی ہے،پھر فرمایا کہ وہ   ﴿تَبَارَکَ الَّذِيْ بِیَدِهِ الْمُلْکُ ﴾ ہے  اور  تبارک الذی میں ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  کے علاوہ تیس آیتیں ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  سورت  کا جز نہیں ہے ۔

سنن الترمذي ت شاكر (5/ 164)
"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن سورةً من القرآن ثلاثون آيةً شفعت لرجل حتى غفر له، وهي سورة ﴿تَبَارَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾ » : «هذا حديث حسن»".

3... صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایتمنقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں؟ انہوں نے عرض کیا: وہ کون سی سورت ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ۔۔۔ الخمعلوم ہواکہ آپ ﷺ نے سورہ فاتحہ بتاتے اور سکھاتے ہوئے الحمد سے ہی آغاز فرمایا، اور اسی حدیث میں آپ ﷺ نے سورہ فاتحہ کو "سبع مثانی" بھی ارشاد فرمایا۔ اس سے بتصریح یہ بات معلوم ہوئی کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کا جز نہیں ہے۔

البناية شرح الهداية (2/ 192۔193۔194۔195)
"رواه البخاري في "صحيحه " من حديث أبي هريرة قال: «كنت أصلي في المسجد فدعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم أجبه فقلت: يا رسول الله كنت أصلي، فقال: "ألم يقل الله: ﴿ اِسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ﴾ [الأنفال: 24] ، ثم قال لي: ألا أعلمك سورةً هي أعظم سورة في القرآن؟ قلت: ما هي؟ قال: ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته» . فأخبر أنها السبع المثاني، ولو كانت البسملة آيةً منها لكانت ثمانياً؛ لأنها سبع آيات بدون البسملة".
 

ہاں  ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  قرآن مجیدکی ایک آیت ضرور ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے سورتوں کی انتہا  اور ابتدا معلوم ہوجائے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درج ذیل ارشاد سے ثابت ہوتا ہے :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورتوں کی انتہا نہیں پہچانتے تھے یہاں تک کہ ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾نازل ہوئی،  جب ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  نازل ہوئی تو  حضور ﷺ اس بات کو پہچاننے لگے کہ ایک سورت ختم ہوئی اور دوسری شروع ہوئی۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (6/ 310)
" عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَعْرِفُ خَاتِمَةَ السُّورَةِ حَتَّى تَنْزِلَ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾، فَإِذَا نَزَلَ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ عَلِمَ أَنَّ السُّورَةَ قَدْ خُتِمَتْ، وَاسْتُقْبِلَتْ وَابْتُدِئَتْ سُورَةٌ أُخْرَى» .
قُلْتُ: رَوَى أَبُو دَاوُدَ مِنْهُ: «لَا يَعْرِفُ خَاتِمَةَ السُّورَةِ حَتَّى تَنْزِلَ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ فَقَطْ» . رَوَاهُ الْبَزَّارُ بِإِسْنَادَيْنِ، وَرِجَالُ أَحَدِهِمَا رِجَالُ الصَّحِيحِ. وَقَدْ تَقَدَّمَتْ أَحَادِيثُ هَذَا الْبَابِ فِي الصَّلَاةِ".

 نیز    جہری نمازوں میں  ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾  بھی جہراً پڑھی جائے یا نہیں؟

یہ مسئلہ بھی ابتدا سے مختلف فیہ ہے، اس میں صحیح اور قوی یہ ہے کہ جہر سے نہ پڑھی جائے،  آں حضرتﷺ اور خلفائے راشدین سے بسندِ صحیح جہر سے پڑھنا ثابت نہیں ، اور وہ جہراً نہیں بلکہ سراً پڑھتے تھے ۔ اس کی  دلیل  "مسلم شریف  " کی یہ روایت  ہے :

صحيح مسلم (1/ 299)
"عن أنس بن مالك، أنه حدثه قال: " صليت خلف النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر، وعمر، وعثمان، فكانوا يستفتحون بـ ﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾، لا يذكرون ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ [الفاتحة: 1] في أول قراءة ولا في آخرها. "

ترجمہ:  حضرت  انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں  نے آں حضرت ﷺ اور ابو بکر و عمر  اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب قرأت ﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ سے شروع کرتے تھے۔ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ نہ ابتدائے قرأت میں پڑھتے تھے نہ آخر میں ۔ یعنی فاتحہ کے ختم اور سورت کے شروع پر بھی نہیں پڑھتے تھے۔ 
     "صحیح  مسلم"  میں حضرت انس رضی اللہ عنہ  کی یہ حدیث بھی ہے :

"سمعت قتادة، يحدث عن أنس، قال: " صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر، وعمر، وعثمان، فلم أسمع أحداً منهم يقرأ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ ". (صحيح مسلم (1/ 299)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  : میں نے حضرت ﷺ اور ابوبکر اور عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی ہے تو ان میں سے کسی کو ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾پڑھتے  میں نے نہیں سنا ۔

طبرانی کبیر اور اوسط میں حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾  پڑھتے تھے تو مشرکین بطورِ استہزا کہتے  تھے کہ محمد تو یمامہ کے خدا ( یعنی مسیلمہ) کا نام  لیتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ اپنے آپ کو رحمٰن و رحیم کہلواتا تھا، پھر جب یہ آیت ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ نازل ہوئی تو حضورﷺ نے لوگوں کو یہ امر فرمایا کہ اسے جہراً نہ پڑھیں۔  یہ حدیث بھی مجمع الزوائد (۱) میں نقل کرکے مصنف نے کہا ہے : "ورجاله موثقون" یعنی اس کے  راوی معتبر اور قوی ہیں ۔ 

 المعجم الكبير للطبراني (11/ 439)
"عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرأ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ هزئ منه المشركون، وقالوا: محمد يذكر إله اليمامة، وكان مسيلمة يتسمى الرحمٰن، فلما نزلت هذه الآية، «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا يجهر بها»".

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (2/ 108)
"2630 - وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ هَزِأَ مِنْهُ الْمُشْرِكُونَ وَقَالُوا: مُحَمَّدٌ يَذْكُرُ إِلَهَ الْيَمَامَةِ، كَانَ مُسَيْلِمَةَ يَتَسَمَّى الرَّحْمَنَ الرَّحِيمَ، فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنْ لَا يُجْهَرَ بِهَا». رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ".

    صاحبِ  فتح القدیر   نے طبرانی سے حضرت انس رضی اللہ عنہ  کی یہ راویت بھی ذکر کی ہے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ اِخفا سے یعنی آہستہ پڑھا کرتے تھے۔ ( باب صفۃ الصلاۃ ۱/۲۹۲ ‘ ط مصر)

مجمع الزوائد  میں حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے بہ راویتِ طبرانی  یہ روایت اس طرح منقول ہے :

"عن أنس أن رسول اﷲ ﷺ کان یسر ببسم اللّٰه الرحمن الرحیم وأبوبکر و عمر".

 اور  مصنف نے اس کی سند کے متعلق فرمایا ہے:"رجاله موثقون "  یعنی  اس حدیث کے  راوی معتبر ہیں.  ( باب  بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ  ۲/۱۱۱ ط بیروت )

اور اسی  طرح مجمع الزوائد  میں حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ حضرت علی اور عبداللہ (ابن مسعود ) رضی اللہ عنہما  ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ اور «أَعُوْذُ بِاللّٰهِ» اور «آمِیْن» جہر سے نہیں پڑھتے تھے. (ایضاً)

اور ترمذی   میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل صحابی  رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾  جہر سے  پڑھتے ہوئے سنا تو ان کو سختی سے منع فرمایا اور کہا کہ یہ بدعت ہے، میں  نے آں حضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور کسی کو ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ جہر اً پڑھتے نہیں سنا تو بیٹا تم بھی نہ پڑھا کرو،  جب نماز پڑھو تو  ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ سے پڑھو ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا کہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کا مذہب یہی ہے کہ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾جہر سے نہ پڑھی جائے۔چاروں خلفائے راشدین اسی کے قائل تھے۔  ( باب ماجاء فی ترک الجہر ببسم اللہ ۱/۵۷ ط سعید )

 مذکورہ احادیث  کے علاوہ اور بھی بہت روایات  ہیں جن سے ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾کا آہستہ پڑھا جانا ثابت ہے۔  یہ حدیثیں اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾  سورہ فاتحہ کا جز نہیں ہے ۔ ورنہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ کے خلفاء رضی اللہ عنہم جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ اسے بھی جہراً پڑھتے۔

لہذا  احناف کے نزدیک نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ پڑھنا سنت ہے، اور  یہ سورہ فاتحہ کا جز نہیں ہے، اور ﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ  اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ﴾اور﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ﴾ یہ دونوں  الگ الگ آیات ہیں، اس اعتبار سے سورۂ فاتحہ کی سات آیات ہوگئیں۔

اور  "سبعِ مثانی" سے راجح قول کے مطابق سورہ فاتحہ مراد ہے، اور "سبع" اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں سات آیات ہیں، اور "مثانی" اس لیے کہتے ہیں اسے بار بار پڑھا جاتا ہے۔

1۔۔  اسی بنیاد پر کہ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ سورۂ فاتحہ کا جز نہیں ہے، ہمارے یہاں مروجہ قرآن مجید کے نسخوں میں اس کو آیت شمار نہیں کیا گیا، بلکہ ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾  کو پہلی آیت شمار کیا گیا، اور   ﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ  اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ﴾ اور ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ﴾  کو الگ الگ آیات شمار کرنے کی وجہ سے اس کی سات آیات مکمل ہوجاتی ہیں۔

2۔۔ نمازکے شروع میں ثنا کے بعد تعوذ اور تسمیہ آہستہ آواز سے پڑھنا سنت ہے،  سہواً  اگر ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ پڑھنا رہ گیا تو سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا، البتہ  جان بوجھ کر  ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾نہیں چھوڑنی چاہیے۔ اور اس کی عادت بنالینا مکروہ ہے۔ البتہ سراً تلاوت کی وجہ سے کلمات روانی اور رفتار سے ادا ہوتے ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ بعض ائمہ مساجد اسے روانی سے سراً پڑھ لیتے ہوں اور آپ کو محسوس نہ ہوتاہو۔

البناية شرح الهداية (2/ 192۔193۔194۔195)
"أما الأول: فالصحيح من مذهب أصحابنا أنها من القرآن؛ لأن الأمة اجتمعت على أن ما كان مكتوباً بين الدفتين بقلم الوتر، فهو من القرآن والتسمية كذلك. وكذلك روى المعلى عن محمد فقال: قلت لمحمد: التسمية آية من القرآن؟ فقال: ما بين الدفتين كله من القرآن، وكذا روى الجصاص عن محمد أنه قال: التسمية من القرآن، أنزلت للفصل بين السور والبداية منها تبركاً، وليست بآية من كل واحدة منها، ويبنى على هذا أن فرض القراءة يتأدى بها عند أبي حنيفة إذا قرأها على قصد القراءة دون الثناء؛ لأنها آية من القرآن.
وقال بعض أصحابنا: لا يتأدى؛ لأن في كونها آيةً تامةً احتمال، فإنه روي عن الأوزاعي أنه قال: ما أنزل الله تعالى في القرآن ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ إلا في سورة النمل وحدها، وليست بآية تامة، في قوله: ﴿اِنَّه مِنْ سُلَيْمَانَ وَاِنَّه بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ [النمل: 30] (النمل: الآية 30) ، فوقع الشك في كونها آيةً تامةً، فلا يجوز بالشك؛ ولذا يحرم على الجنب والحائض والنفساء قراءتها على قصد القرآن. أما على قول الكرخي فظاهر؛ لأن ما دون الآية محرم عليهم، وكذا على رواية الطحاوي؛ لاحتمال كونها آيةً تامةً، فيحرم عليهم قراءتها احتياطاً.
الثاني: أنها من الفاتحة أم لا؟ قال الشيخ أبو بكر الرازي: عن أصحابنا رواية منصوصة أنها من الفاتحة أو ليست منها. وذكر السرخسي في " أصول الفقه " عن الرازي أن الصحيح من المذهب عندنا: آية منزلة للفصل لا من أول السورة ولا من آخرها. وقال الشافعي: إنها من الفاتحة قولاً واحداً، وبه قال أبو ثور. وقال أحمد في رواية: إنها من الفاتحة دون غيرها، تجب قراءتها حيث تجب قراءة الفاتحة، وفي رواية وهي الأصح: أنه لا فرق بين الفاتحة وغيرها في ذلك، وإن قرأ بها في أول القراءة كقراءتها في أول السورة وللفصل بين السور وليست من القرآن إلا في النمل، فإنها بعض آية منها. ...  وأما احتجاجات أصحابنا فيما ذهبوا إليه فأحاديث كثيرة، منها: ما رواه مسلم في "صحيحه " من حديث أبي هريرة - رضي الله عنهم - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، نصفها إلي ونصفها لعبدي، يقول العبد: ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، يقول الله: حمدني عبدي، يقول العبد: ﴿الرحمن الرحيم﴾، يقول الله: أثنى علي عبدي، يقول العبد: ﴿مٰلك يوم الدين﴾، يقول الله: مجدني عبدي، يقول العبد: ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾، يقول الله: هذه بيني وبين عبدي، يقول العبد ﴿اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين﴾، قال الله: فهؤلاء لعبدي» .
قال ابن عبد البر: هذا حديث قد رفع الإشكال في سقوط ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ من الفاتحة، وهو نص لا يحتمل التأويل، ولا أعلم حديثاً في سقوط البسملة أبين منه.
قلت: وجه التمسك به أنه ابتدأ القسمة بـ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾ دون البسملة، فلو كانت منها لابتدأ بها. وأيضاً فقد جعل النصف ﴿إياك نعبد﴾ [الفاتحة: 5] فيكون ثلاث آيات لله تعالى في الثناء عليه وثلاث آيات للعبد، وآية بينهما، وفي جعل التسمية منها إبطال هذه القسمة فيكون باطلاً. وأيضاً أنه قال: يقول العبد: ﴿اهدنا الصراط المستقيم﴾ إلى آخرها، ثم قال: هؤلاء لعبدي، هكذا ذكره أبو داود والنسائي بإسنادين صحيحين، وهو جمع، فيقتضي ثلاث آيات، وعلى قول الشافعي يكون اثنين وللباري أربع ونصف إذا لم يعدوا ﴿أنعمت عليهم﴾ [الفاتحة: 7] آيةً، وإن عدوها آيةً تصير ثماني آيات، وهذا كله خلاف تصريح الحديث بالنصف. والمراد بالصلاة القراءة، ألا تراه كيف فسر القراءة وقسم الآيات،  ... 

ونحن نذكر من الأحاديث الصحيحة التي استدللنا بها ما رواه البخاري في "صحيحه " من حديث أبي هريرة قال: «كنت أصلي في المسجد فدعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم أجبه فقلت: يا رسول الله كنت أصلي، فقال: "ألم يقل الله: ﴿ اِسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ﴾ [الأنفال: 24] ، ثم قال لي: ألا أعلمك سورةً هي أعظم سورة في القرآن؟ قلت: ما هي؟ قال: ﴿الحمد لله رب العالمين﴾، هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته» . فأخبر أنها السبع المثاني، ولو كانت البسملة آيةً منها لكانت ثمانياً؛ لأنها سبع آيات بدون البسملة.
ومنها: ما رواه أصحاب السنن الأربعة عن شعبة عن قتادة عن عباس الجشمي عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن سورةً من القرآن شفعت لرجل حتى غفر له وهي ﴿تَبَارَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾ [الملك: 1] » قال الترمذي: حديث حسن، ورواه أحمد في "مسنده " وابن حبان في "صحيحه " والحاكم في "مستدركه " وصححه، وعباس وثقه ابن حبان، ولم يتكلم فيه أحد.
وجه الاستدلال به أن هذه السورة ثلاثون آيةً بدون البسملة بلا خلاف بين العادين، وأيضاً فافتتاحه بقوله: ﴿تَبَارَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾ [الملك: 1]  دليل على أن البسملة ليست منها. وأما القسم الرابع فنذكره عن قريب إن شاء الله تعالى.

م: (ويسر بهما) ش: أي يخفي بالاستعاذة والتسمية. قال الأترازي: قال المطردي: أسر الحديث: أخفاء، وزيادة الباء سهو، وكذا قال السغناقي. قلت: يستعمل باب أفعل بالباء أيضاً.
م: (لقول ابن مسعود - رضي الله عنه -: أربع يخفيهن الإمام، وذكر منها التعوذ، والتسمية وآمين، وربنا لك الحمد) ش: وهذا غريب، ولكن معناه رواه ابن أبي شيبة في "مصنفه " ثنا هشيم عن سعيد بن المرزبان ثنا أبو وائل عن ابن مسعود أنه كان يخفي ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ والاستعاذة وربنا لك الحمد. وروى سعد بن الحسن في كتاب "الآثار " ثنا أبو حنيفة - رضي الله تعالى عنه - ثنا حماد بن أبي سليمان عن إبراهيم النخعي قال: أربع يخفيهن الإمام: التعوذ، و﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، وسبحانك اللهم وبحمدك، وآمين.
ورواه عبد الرزاق في "مصنفه " ثنا معمر عن حماد، فذكره إلا أنه قال عوض سبحانك اللّٰهم ربنا لك الحمد، ثم قال: أنا الثوري عن منصور عن إبراهيم قال: خمس يخفيهن الإمام، فذكرها، وزاد سبحانك اللّٰهم وبحمدك. وروى أبو معمر عن عمر بن الخطاب أنه قال: يخفي الإمام أربعاً: التعوذ، و﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، وآمين، وربنا لك الحمد".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں