ایک قسم کی گھاس کی فصل ہے جس کو ”برسیم“ کہتے ہیں جو کہ ایک دفعہ کاٹنے کے بعد دوبارہ اگتی ہے، اسی طرح یہ 6 یا سات دفعہ اگتی ہے، اس فصل کو پہلی اگائی سے آخر تک بیچنا کیسا ہے؟ اگر ناجائز ہے تو جواز کی کوئی صورت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں برسیم گھاس کی فصل کی بیع پہلی مرتبہ فروخت کرنا تو جائز ہے، اگرچہ وہ گھاس ابھی تک جڑ میں ہو، لیکن پہلی مرتبہ میں ہی اس کو آئندہ چھ مرتبہ تک فروخت کردینا درست نہیں ہے، اس لیے کہ یہ یقینی معلوم بھی نہیں ہے کہ وہ کتنی مرتبہ مزید اُگے گی، نیز اُ گے گی بھی یا نہیں، اور اتنے عرصہ تک فروخت کرنے والے کی زمین مشتری کی تصرف میں رہے گی، اور یہ سب چیزیں فریقین کے درمیان جھگڑے کا سبب بنیں گے۔
یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ پہلی مرتبہ مذکورہ فصل ایک معین قیمت پر فروخت کردی جائے، اور جب خریدار وہ گھاس کاٹ لے، تو باہمی رضامندی سے وہ شخص زمین کے مالک سے یہ زمین متعینہ مدت تک (جب تک فریقین کو اندازا ہو کہ اس میں یہ چھ یا سات مرتبہ فصل پیدا ہوجاتی ہے) کرایہ پر لے لے، اور کرایہ کی رقم بھی متعین کرلے، پھر جب اس کے بعد جب مزید فصل نکلے گی تو زمین کرایہ پر لینے والے کے لیے اس سے انتفاع درست ہوگا۔
"وأما النهي عن بیع المعاومة وهو بیع السنین، فمعناه أن یبیع ثمر الشجرة عامین أو ثلاثة أو أکثر فیسمی بیع المعاومة، وبیع السنین وهو باطل بالإجماع؛ ولأنه بیع غرر؛ لأنه بیع معدوم". (شرح النووي علی مسلم ۲؍۱۰)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 53):
"مطلب في بيع أصل الفصفصة: قلت: بقي شيء لم أر من نبه عليه، وهو ما يكون أصله تحت الأرض ويبقى سنين متعددة مثل الفصفصة تزرع في أرض الوقف وتكون كالكردار للمستأجر في زماننا فإذا باع ذلك الأصل وعلم وجوده في الأرض صح بيعه لكنه لايرى ولايقصد قلعه؛ لأنه أعد للبقاء فهل للمشتري فسخ البيع بخيار الرؤية؟ الظاهر نعم؛ لأن خيار الرؤية يثبت قبل الرؤية، تأمل". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004201211
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن