بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بدحواسی، ناسمجھی اور نشہ کی حالت میں طلاق دینا


سوال

عرض ہے کہ میں نے 2016 میں شادی کی، اور سال بعد نشے کی حالت میں بیوی کے تقاضے پر ایک طلاق کہہ دی۔  دوبارہ رجوع کیا اور ۳ ماہ بعد تکرار ہوئی اور پھر ایک طلاق دی گئی۔ دوبارہ رجوع ہوا ، میں اسلام آباد رہائش پزیر تھا جب کہ میری بیوی کراچی میں اپنے بچوں کے ہم راہ۔ میں ہر ماہ ۳یا۴ روز کے لیے جاتا۔ مئی ۲۰۱۸ میں ایک دعوت پر گیا جہاں مجھ سے ایک شخص نے جھوٹ بولا کہ میری بیوی میری مرضی کے خلاف لوگوں سے ملتی رہی ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد میں نے اسے نوکری سے منع کر دیا تھا اور یہ بات مجھے سخت ناگوار گزری۔ میں نشے میں تھا اور گھر آکر لیٹ گیا۔ ابھی میری آنکھ لگی ہوگی یا اونگھ آئی ہوگی کہ میری بیوی نے جھٹک کے میرا فون اٹھایا۔ اِس غیرمتوقع حالت میں جاگنے کے بعد بدحواسی میں ہماری عجیب سی لڑائی شروع ہو گئی جس میں دھکم پیل بھی ہوئی۔ ابھی اسی بدحواسی اور ہیجانی کیفیت میں تھے کہ ہماری چھوٹی بیٹی [۱۶ سالہ] ساتھ کمرے سے نکل کے چِلائی۔ کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کیا کِیا جائے۔ میں نِکلنے لگا تو زوجہ کے تقاضے پر طلاق کہہ دی۔ مجھے اِس بات کا اِدراک ہے کہ یہ معاملہ صرف نشے کی وجہ سے نہ ہوا، بلکہ ایک جھوٹے اِلزام اور اِس عجیب ہیجانی کیفیت جو کہ بدحواسی اور ناسمجھی کی بِنا پر طاری ہوئی، ایسی صورت پیش آئی۔ اِس واسطے کگتا ہے کہ نکاح قائم ہے۔ اِس تمام صورتِ حال کے پیشِ نظر درخواست ہے کہ قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں واضح کیا جائے کہ اِس اَمر میں کیا معاملہ ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے متفرق طور پر دو طلاقیں بیوی کو دے دی تھیں اور دونوں بار رجوع کرلیا تھا تو آپ کا نکاح برقرار تھا اور آپ کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی تھا، پھر جب آپ نے 2018 میں بیوی سے لڑائی جھگڑےے کے دوران تیسری طلاق بھی دے دی تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی،  بدحواسی کی کیفیت  میں ہونا، بلکہ نشہ کی حالت میں ہونا بھی طلاق کے لیے مانع نہیں ہے، لہذا آپ کا نکاح ختم ہوگیا، بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب آپ کے لیے بیوی سے دوبارہ رجوع کرنا یا تجدیدِ نکاح کرنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ آپ کی بیوی عدت گزار کر دوسری جگہ  از خود نکاح کرے، جس نکاح کرانے میں آپ شریک نہ ہوں، اور دوسرا شوہر جسمانی تعلق قائم کرے، اور اس کے بعد وہ انتقال کرجائے یا از خود طلاق دے دے اور بیوی دوسرے شوہر کی بھی عدت گزار لے تو آپ کے لیے اس سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 239):

"السكر: سرور يزيل العقل فلا يعرف به السماء من الأرض. وقال: بل يغلب على العقل فيهذي في كلامه، ورجحوا قولهما في الطهارة والأيمان والحدود. وفي شرح بكر: السكر الذي تصح به التصرفات أن يصير بحال يستحسن ما يستقبحه الناس وبالعكس. لكنه يعرف الرجل من المرأة، قال في البحر: والمعتمد في المذهب الأول، نهر. قلت: لكن صرح المحقق ابن الهمام في التحرير أن تعريف السكر بما مر عن الإمام إنما هو السكر الموجب للحد؛ لأنه لو ميز بين الأرض والسماء كان في سكره نقصان وهو شبهة العدم فيندرئ به الحد، وأما تعريفه عنده في غير وجوب الحد من الأحكام فالمعتبر فيه عنده اختلاط الكلام والهذيان كقولهما. ونقل شارحه ابن أمير حاج عنه أن المراد أن يكون غالب كلامه هذياناً، فلو نصفه مستقيماً فليس بسكر، فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود وغير ذلك؛ لأن السكران في العرف من اختلط جده بهزله فلا يستقر على شيء، ومال أكثر المشايخ إلى قولهما، وهو قول الأئمة الثلاثة واختاروه للفتوى؛ لأنه المتعارف، وتأيد بقول علي رضي الله عنه: "إذا سكر هذى"، رواه مالك والشافعي ؛ ولضعف وجه قوله، ثم بين وجه الضعف، فراجعه.
وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب، فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء، ويصح إسلامه كالمكره لإرادته؛ لعدم القصد. وأما الهازل فإنما كفر مع عدم قصده لما يقول بالاستخفاف؛ لأنه صدر منه عن قصد صحيح استخفافاً بالدين بخلاف السكران، (قوله: بنبيذ) أي سواء كان سكره من الخمر أو الأشربة الأربعة المحرمة أو غيرها من الأشربة المتخذة من الحبوب والعسل عند محمد. قال في الفتح: وبقوله يفتى؛ لأن السكر من كل شراب محرم. وفي البحر عن البزازية: المختار في زماننا لزوم الحد ووقوع الطلاق. اهـ. وما في الخانية من تصحيح عدم الوقوع فهو مبني على قولهما من أن النبيذ حلال، والمفتى به خلافه. وفي النهر عن الجوهرة: أن الخلاف مقيد بما إذا شربه للتداوي، فلو للهو والطرب فيقع بالإجماع"
.

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - ﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَه﴾[البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً" .

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں