بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بانجھ عورت کو طلاق دینا


سوال

ایک شخص اپنی بیوی کوبوجہ بانجھ پن طلاق دیناچاہتاہے،کیااس طرح کرناٹھیک ہے؟

جواب

اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے اور علاج کے باجود اولاد کی امید نہ ہوتوطلاق دیناضروری نہیں، بلکہ  اسے اعتماد میں لے کر اسے نکاح میں رکھتے ہوئے  دوسری شادی کرلے، اگرآدمی دونوں بیویوں کو رکھنے کی استطاعت رکھتاہو۔اور  اگر دونوں کو ساتھ رکھنے کی مالی یا جسمانی طاقت نہ ہو تو  بوجہ ضرورت پہلی بیوی کو طلاق دینے کی گنجائش ہوگی اور عورت پورے مہر کی حق دار ہوگی۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً ﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: « أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق»۔ قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ ''۔( (3 / 228) ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں