بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سانس میں تین طلاق دینے سے کتنی طلاق واقع ہوں گی؟


سوال

اگر کوئی شوہر ایک سانس میں تین طلاقیں دے دے تو کیا ایک طلاق واقع ہوتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر راہ نمائی کریں!

جواب

واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے لے کر آج تک امت کا اجماع ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ہی جملہ سے دی جائیں یا الگ الگ جملہ سے دی جائیں یا مختلف اوقات میں دی جائیں بہر صورت تین طلاق ہی واقع ہوتی ہیں اسی پر تمام مسالک کے ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) کا فتوی بھی ہے اور یہی بات خلفاءِ راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے سمجھی تھی اور اسی کے مطابق عمل کرتے رہے، نیز امام بخاری و دیگر محدثین رحمہم اللہ کا مسلک بھی یہی تھا؛ لہذا ایک سانس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک سمجھنا غلط ہے۔ ایک جملہ سے تین طلاق کے وقوع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بخاری شریف (٢/٧٩١) اور سنن أبي داؤد، باب اللعان(١/٣٢٤) میں مذکور ہے:

"عن ابن شهاب عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال: فطلقا ثلاث تطليقات عند رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلي الله عليه وسلم".( ابو داؤد).

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة"میں مذکور ہے:

"عن أنس رضي الله عنه: كان عمر رضي الله عنه إذا أتي برجل قد طلق إمرأته ثلاثاً في مجلس أوجعه ضرباً و فرق بينهما". (باب من كره أن يطلق الرجل إمرأته ثلاثاً ٤/١١).

خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة"میں مذکور ہے:

"عن معاوية ابن أبي يحي قال: جاء رجل إلى عثمان فقال: إني طلقت امرأتي مائةً؛ قال: ثلاث تحرمها عليك و سبعة و تسعون عدوان". ( باب ماجاء يطلق إمرأته مائة و ألف في قول واحد ٤/١٣).

خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف عبد الرزاق"میں مذکور ہے:

"عن شريك بن أبي نمر قال: جاء رجل إلى علي رضي الله عنه فقال: إني طلقت إمرأتي عدد العرفج؛ قال: تأخذ من العرفج ثلاثاً و تدع سائره". (باب الطلق ثلاثاً ٦/٣٠٦).

تفسیر "احکام القرآن" للقرطبی میں تین طلاق کے وقوع پر امت کا اجماع منقول ہے:

"قال علمائنا: و اتفق ائمة الفتوى علي لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة". (١/٦٩٢)

"مسلم شریف "کی شرح "الجامع الصحيح" للنووي میں ہے:

"وقد اختلف العلماء فيمن قال لإمرأته: "أنت طالق ثلاثاً" فقال الشافعي و مالك و أبو حنيفة و أحمد و جماهير العلماء من السلف و الخلف: يقع الثلاث". (١/٤٧٨ ط: قديمي) احناف کی فتوی کی مشہور کتاب "فتاوی شامی" میں ہے:

"(قوله: ثلاثة متفرقة) و كذا بكلمة واحدة بالأولى ... و ذهب جمهور الصحابة و التابعين و من بعدهم من أئمة المسلمين الي أنه يقع الثلاث". ( كتاب الطلاق : مطلب طلاق الدور ٣/٣٣٣ ط:سعيد).

فقہ مالکی کی مشہور کتاب "التمهيد" لابن عبد البرمیں ہے:

"فإن طلقها في كل طهر تطليقةً أو طلقها ثلاثاً مجتعات في طهر لم يمس فيه فقد لزمه". (٦/٥٨)

امام شافعی کی مشہور کتاب " كتاب الأم"میں ہے:

"و القراٰن يدل-و الله اعلم- على أن من طلق زوجةً له دخل بها أو لم يدخل بها ثلاثاً لم تحل له حتى تنكح زوج غيره". (٢/ ١٩٣٩)

فقہ حنبلی کی مشہور کتاب "مسائل احمد" برواية ابنهمیں ہے:

" قلت لأبي: رجل طلق ثلاثاً وهو ينوي واحدةً؟ قال: هي ثلاث". (ص:٣٧٣) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں