بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصالِ ثواب کا ثبوت اور ایصال کرتے وقت کیا الفاظ کہے جائیں؟


سوال

تسبیحات اور نوافل کا ثواب ہم اپنے آباو اجداد اور امتِ  مسلمہ کو بخش دیتےہیں، اس حوالے سے درج ذیل سوالات ہیں:

 1. کیا لفظ بخش دینا صحیح ہے اس مقصد کے لیے؟

2. کیا تسبیح اور نوافل پڑھنے والے کو خود ان چیزوں کا ثواب ملتا ہےیا صرف آباو اجداد کو  یا دونوں کو؟

3. اس طرح ثواب ایصال کرنے کی دلیل قران و سنت سے  درکار ہے.

جواب

1- ایصالِ  ثواب کرتے ہوئے ہر ایسا لفظ کہا جاسکتا ہے جس سے ثواب پہنچانا مفہوم ہوتا ہو، مثلاً: یوں کہا جائے: ’’میں اس عمل کا ثواب فلاں کو بخشتا ہوں‘‘ یا یوں دعا کی جائے: ’’یا اللہ اس عمل کا ثواب فلاں کے حق میں قبول فرما‘‘ یا اس کا ثواب فلاں کو پہنچا دیجیے‘‘۔ بخشنے کا لفظ عرف میں معاف کرنے اور عطا کرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتاہے، اور سیاق و سباق اور استعمال سے اس کا مفہوم متعین ہوجاتاہے، اس لیے شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم دعا میں بھی اللہ تعالیٰ سے یوں کہتے ہیں: ہمیں بخش دیجیے۔ اور دوسروں کو بھی کہتے ہیں: ہم نے اس کا ثواب فلاں کو بخش دیا۔ درحقیقت دونوں جملوں کا معنیٰ اپنی جگہ استعمال کے فرق سے درست ہے ۔

2- جس عمل کا ایصالِ ثواب کیا جائے،  ایصالِ ثواب کرنے کو بھی اس عمل کا پورا پورا ثواب ملے گا۔

3- نفلی اعمال کا ایصالِ  ثواب کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے،ملاحظہ ہو: 

مسند أحمد مخرجاً (33/ 417):
" عن معقل بن يسار، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " البقرة سنام القرآن وذروته، نزل مع كل آية منها ثمانون ملكاً، واستخرجت {الله لا إله إلا هو الحي القيوم} [البقرة: 255] من تحت العرش، فوصلت بها، أو فوصلت بسورة البقرة، ويس قلب القرآن، لايقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، واقرءوها على موتاكم".

الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني (8/ 101):
"(وروى الدارقطني) أن رجلاً قال: يا رسول الله إنه كان لي أبوان أبرهما في حال حياتهما، فكيف لي ببرهما بعد موتهما؟ قال: إن من البر بعد البر أن تصلي لهما مع صلاتك وأن تصوم لهما مع صيامك.

(وعن عبد الرحمن بن العلاء) بن اللجلاج عن أبيه أنه قال لبنيه: إذا أدخلتموني قبري فضعوني في اللحد، وقولوا: "بسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسنوا علي التراب سناً، واقرءوا عند رأسي أول البقرة وحاتمتها؛ فإني رأيت ابن عمر يستحب ذلك. رواه (هق. طب) وسنده جيد (الأحكامي) أحاديث الباب مع ما ذكرنا في الزوائد تدل على انتفاع الميت بما يهديه إليه الأحياء من أعمال الخير كالصدقة والصلاة والصيام والحج والعتق وقراءة القرآن (وللعلماء في ذلك مذاهب شتى) (قال الحافظ ابن القيم) في كتابه الروح: أجمع أهل السنة على انتفاع الأموات بشيئين: (أحدهما) ما تسبب به الميت في حياته؛ لقوله تعالى: {فمن يعمل مثقال ذرة خيراً يره ومن يعمل مثقال ذرة شراً يره}، واستدل بأحاديث كثيرة، (منها): حديث أبي هريرة المذكور في الزوائد بلفظ: "إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث الخ". (والثاني): دعاء المسلمين واستعفارهم والتصدق عنه والحج؛ لقوله تعالى: {والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا باللإيمان}. وأجمعت الأمة على الدعاء للميت في صلاة الجنازة وأتى بأحاديث كثيرة في هذا المعنى".

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
سورۂ یٰسین قرآن کا قلب ہے، جوشخص اس کواللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے لیے پڑھے گا اس کی مغفرت ہوگی؛ نیز تم اس سورت کواپنے مردوں پرپڑھا کرو۔

ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والدین زندہ تھے تومیں ان کے ساتھ حسن سلوک کیا کرتا تھا، اب ان کی وفات ہوگئی، تواب میں ان کے ساتھ کس طرح سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزوں کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوقبرستان میں داخل ہو، وہ سورہ فاتحہ ، قل ہو اللہ احد اور أَلْهٰکُمُ التَّکَاثُرْپڑھے اور کہے کہ میں نے اس پڑھے ہوئے کلام کا ثواب اہلِ قبرستان مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے کردیا، تووہ لوگ اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سفارشی ہوں گے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوقبرستان میں داخل ہو اور سورۂ یٰسین پڑھے تواللہ تعالیٰ ان سب یعنی قبرستان میں مدفون لوگوں سے عذاب کوہلکا کردیتے ہیں اور اس کے لیے ان تمام لوگوں کے برابر نیکیاں ہوتی ہیں۔(تفسیر مظہری : ۹ / ۱۲۹)

ابن لجلاج رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے صاحب زادگان سے فرمایا: جب تم لوگ مجھے میری قبر میں داخل کرو توقبر میں رکھتے ہوئے کہو بِسْمِ اللهِ وَعَلَی سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ پھرمٹی ڈال دو اور میرے سرہانے سورۂ بقرہ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھو؛ کیوں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے کہ وہ اس عمل کوپسند فرماتے تھے؛ محدثین نے اس کی سند کومعتبر ومقبول مانا ہے۔

إعلاء السنن:

’’عن علي رضي اللّٰه عنه مرفوعاً: من مر علی مقابر، وقرأ: {قل هو اللّٰه أحد} إحدی عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات، أعطی من الأجر بعدد الأموات‘‘.  (إعلاء السنن دارالکتب العلمیة ۸؍۳۳۰ رقم: ۲۳۲۰)

وفیه أیضاً:

’’عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من دخل المقابر، ثم قرأ فاتحة الکتاب، و قل هواللّٰه أحد، وألهکم التکاثر، ثم قال: اللّٰهم إني قد جعلت ثواب ما قرأت من کلامک لأهل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء له إلی اللّٰه تعالی‘‘. (إعلاء السنن ۸؍۳۳۱ رقم: ۲۳۲۱)

حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک پڑھ کر اور بدنی ومالی نفلی عبادتوں کے ذریعہ ایصالِ ثواب حدیث سے ثابت ہے اور یہی ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کی رائے ہے اور فقہاء شوافع میں سے بھی بہت سے لوگ اسی کے قائل ہیں۔ 

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (2 / 595):
’’ مطلب في إهداء ثواب الأعمال للغير

  (قوله: بعبادة ما ) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كما في الهندية ط. وقدمنا في الزكاة عن التاترخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولاينقص من أجره شيء اهـ‘‘. 

التفسير المظهرى:
’’احتج الجمهور على وصول الثواب من غيره بالأحاديث والإجماع، أما الأحاديث فمنها... حديث أبى هريرة قال: قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له. رواه مسلم ... وحديث أبى هريرة قال: قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: إن اللّه ليرفع الدرجة للعبد الصالح في الجنة، فيقول: يا رب إنى لي هذه؟ فيقول: باستغفار ولدك لك. رواه الطبراني وروى نحوه عن أبي سعيد مرفوعاً. وحديث ابن عباس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ما الميت فى قبره إلا شبه الغريق المتفوت ينتظر دعوة ملحقة من أب وأم أو ولد أو صديق ثقة، فإذا ألحقته كانت أحب إليه من الدنيا وما فيها، وإن اللّه ليدخل على القبور من دعاء أهل الأرض أمثال الجبال، وإن هدية الأحياء إلى الأموات الاستغفار لهم. رواه البيهقي والديلمي. وحديث ... مرفوعاً: أمتي أمة مرحومة تدخل قبورها بذنوبها، وتخرج من قبورها لا ذنوب عليها يمحض عنها باستغفار المؤمنين لها. رواه الطبراني فى الأوسط. قال السيوطي: وقد نقل غير واحد الإجماع على أن الدعاء ينفع الميت، ودليله من القرآن قوله تعالى: {وَالَّذِينَ جاؤُ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَلِإِخْوانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونا بِالْإِيمانِ...} الخ (سورة النجم الآیة:۳۹)

 مزید تفصیل کے لیے تفسیر مظہری (اردو)کا متعلقہ مقام [سورہ نجم:39]ملاحظہ فرمالیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں