بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیسے ڈالنے کی اجرت حلال ہے


سوال

میں ایزی پیسہ دکان دار ہوں،  لوگ میرےپاس آکر اپنے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیسہ ڈالنے کا کہتے ہیں . ان لوگوں میں سے کچھ لوگ تو اسی وقت کسی اور جگہ سے پیسے نکالتے ہیں جب کہ کچھ لوگ پیسے اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں جس سے ان کو کمپنی کی طرف سے فری منٹس ملتے ہیں. میرے لیے شرعی کیا حکم ہے کہ ان کے لیے پیسے ڈالوں یا نہیں؟ نیز گاہک سے اس بات کا بھی پوچھنا کہ وہ پیسے رکھےگا یا نکالےگاگاہک کو نامناسب لگتا ہے!

جواب

سائل کا  گاہک کے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیسے ڈالنا جائز ہے اور یہ پیسے ڈالنے کی جو اجرت ملتی ہے وہ سائل کے لیے حلال ہے۔ باقی ان پیسوں کو اکاؤنٹ میں رکھ کر ان سے فری منٹس حاصل کرنا (جو کہ سود کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے) گاہک کا ذاتی فعل ہے، اس سے سائل کی آمدنی پر کوئی اثر نہیں آئے گا۔

جواہر الفقہ میں ہے :

’’دوسری قسم سببِ قریب کی وہ ہے کہ ہے تو سبب قریب مگر معصیت کے لیے محرک نہیں، بلکہ صدورِ معصیت کسی دوسرے فاعلِ مختار کے اپنے فعل سے ہوتا ہے، جیسے بیع عصیر عنب ممن یتخذہ خمراً یاإجارة دار ممن یتعبد فیها الأصنام غیرہ کہ یہ بیع و اجارہ اگرچہ ایک حیثیت سے سببِ قریب ہے معصیت کا، مگر جالب اور محرک للمعصیۃ نہیں، شیرۂ انگور خریدنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو شراب ہی بنائے اور گھر کو کسی مشرک کے لیے کرایہ پر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اس میں بت پرستی بھی کرے، بلکہ وہ اپنی خباثت یا جہالت سے اس گناہ میں مبتلا ہوتا ہے، شیرہ بیچنے والا یا مکان کرایہ پر دینے والا معصیت کا باعث اور محرک نہیں ہے۔

ایسے سبب قریب کا حکم یہ ہے کہ اگر بیچنے یا اجارہ پر دینے والے کا مقصد اس معصیت ہی کا ہو، تب تو یہ خود ارتکابِ معصیت اور اعانتِ معصیت میں داخل ہو کر قطعاً حرام ہے۔ اور اگر اس کا قصد ونیت شامل نہ ہو، تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں، یک یہ کہ اس کو علم بھی نہ ہو کہ یہ شخص شیرۂ انگور خرید کر سرکہ بنائے گا یا شراب، یا گھر کرایہ پر لے کر اس میں صرف سکونت کرےگا، یا کوئی ناجائز کام فسق وفجور کرےگا، اس صورت میں یہ بیع و اجارہ بلا کراہت جائز ہے…‘‘ (۷/۵۱۳ مکتبہ دار العلوم کراچی)

پس  مسئولہ صورت میں جب سائل کو یہ معلوم نہیں ہے کہ گاہک ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیسے ڈال کر کیا کرے گا، تو اس کے لیے ایزی لوڈ کرنا جائز ہے۔ اور تحقیق و تفتیش بھی اس کے ذمہ لازم نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں