ایک شخص اچانک غائب ہو گیا جو کہ شادی شدہ تھا، پھر اس کے والد نےاس کی بیوی کو کہا کہ میرا بیٹافوت ہو گیا ہے، تم دوسری شادی کر لو، اس عورت نے عدالت سے خلع لے کر دوسری شادی کر لی، اب ایک سال بعد وہ شخص واپس آگیا ہے، اب اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ عورت پہلے خاوند کے پاس رہے گی یا دوسرے کے ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے بدستور قائم ہے، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو گیا؛ اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی اختیار کر لے۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی تھی تو پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔
المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64):
"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200825
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن