بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام اللہ کے ناموں میں سے رکھوں گا کہنے کے بعد دوسرا نام رکھنا


سوال

اگر کسی شخص نے کہا کہ اگر میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں اس کا نام اللہ کے ناموں میں سے رکھوں گا ۔ اب اگر وہ کوئی اور نام رکھنا چاہے تو کیا وہ رکھ سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ "  اگر میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں اس کا نام اللہ کے ناموں میں سے رکھوں گا" اس سے نذر منعقد نہیں ہوتی،  نذر کے منعقد ہونے کی من جملہ شرائط میں سے ہے کہ وہ عبادتِ مقصودہ ہو، اور اس کی جنس میں سے  کوئی فرض  عبادت ہو، مباح چیزوں کی نذر لازم نہیں ہوتی، لہذا اگر مذکورہ شخص بیٹے کی ولادت کے بعد  اس کا نام اللہ کے ناموں میں سے کسی نام کے علاوہ  کوئی اور نام رکھنا چاہتا ہے تو رکھ سکتا ہے۔ اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 82)
"(ومنها): أن يكون قربةً مقصودةً، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قرباً؛ لأنها ليست بقرب مقصودة"۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 736)
"(ولم يلزم) الناذر (ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض وتشييع جنازة ودخول مسجد) ولو مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم أو الأقصى؛ لأنه ليس من جنسها فرض مقصود، وهذا هو الضابط كما في الدرر. 

(قوله: وهذا هو الضابط) الإشارة إلى ما ذكره من أن ما ليس من جنسه فرض لا يلزم. وعبارة الدرر: المنذور إذا كان له أصل في الفروض لزم الناذر كالصوم والصلاة والصدقة والاعتكاف؛ وما لا أصل له في الفروض فلا يلزم الناذر كعيادة المريض، وتشييع الجنازة ودخول المسجد، وبناء القنطرة والرباط والسقاية ونحوها هذا هو الأصل الكلي"۔ 

البتہ مناسب ہے کہ  اپنے مذکورہ ارادے کو پورا کرتے ہوئے "اللہ" کے ناموں میں سے کسی ایک کے ساتھ "عبد" لگاکر  نام رکھ لے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں