بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے آپ کو بچانے یا دل ٹوٹنےسے بچانے کے لیے جھوٹ بولنا


سوال

اگر جھوٹ اپنے آپ کو بچانے یا کسی کے غصہ سے بچنے کی وجہ سے بولا جائے یا کسی کا دل نہ ٹوٹے اس وجہ سے بولا جائے تو کیسا ہے؟ اگر ان صورتوں میں جھوٹ بول دیا جائے تو اس کی معافی اللہ پاک سے مانگنے پر مل جائے گی یا جس سے جھوٹ بولا اسے سچ بتا کے ازالہ کیا جائے؟

جواب

جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، قرآن کریم میں ہے:

﴿ إِنَّ الله َ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِف كَذَّاب ﴾

ترجمہ:اللہ تعالی ایسے شخص کو مقصود تک نہیں پہنچاتا جو (اپنی) حد سے گزرجانے والا ، بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔ (بیان القرآن)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

" آية المنافق ثلاث وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان·" ( الصحيح لمسلم)

 ترجمہ:منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگر چہ وہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: ایک یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے  ، دوسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، تیسرے یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھوٹ کو مسلمان کی شان کے خلاف بتا یا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

 " وعن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب)) ·" ( مسند أحمد )

ترجمہ: مومن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

لہذا جھوٹ سے بچنا اور سچ کو لازم پکڑنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، لیکن شریعتِ مطہرہ نے ضرورت کے مواقع پر "توریہ" اور "تعریض"  کی گنجائش دی ہے جہاں سچ بول کر مقصود حاصل کرنا ممکن نہ ہو، ایسے مواقع پر صریح جھوٹ نہ بولا جائے ، بلکہ گول مول سی بات کی جائے ، مثلاً جان جانے کا خطرہ ہو تو "توریہ" اختیار کرکے جان بچالی جائے، دو بندوں میں صلح کرانے کی غرض سے "توریہ" سے کا م لیا جاسکتا ہے، لیکن کسی کے غصے سے بچنے کے لیے یا کسی کے دل ٹوٹ جانے کے خوف سے "توریہ" اختیار کرنا  جائز نہیں۔

اگر کسی سے جھوٹ بولنے کی وجہ سے اس کا حق ضائع ہوا ہے تو اسے اس کی اطلاع کرکے اس کا حق ادا کرنا ضروری ہے، صرف معافی مانگنے سے حق ساقط نہیں ہوگا، اگر جھوٹ کی وجہ سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوا تو اسے بتانا ضروری نہیں، اللہ کے حضور توبہ کرکے آئندہ نہ کرنے کا عزم کریں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143905200019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں