بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خلاف حقیقت تاریخوں پراور ٹائم ڈیوٹی کے پیسے حاصل کرنے کاحکم


سوال

 میں ایک جگہ پر کام کرتا ہوں، ہماری ڈیوٹی 9 بجے سے لے کر شام 5 بجے تک ہے۔ ہماری ذمہ کام ایک قسم کی پروڈکٹ بنانا ہے، لیکن بعض اوقات ہم ایک قسم پروڈکٹ کے بجائے دوسری قسم کے پروڈکٹ بھی بنا لیتے ہیں، اس لیے بعض اوقات اپنی ڈیوٹی سے ہٹ کر یعنی پانچ بجے کے بعد بھی رک کر وہ کام کرتے ہیں، بعض اوقات ہم اپنی ہی ڈیوٹی یعنی 9 بجے سے پانچ کے درمیان وہ کام کرلیتے ہیں، دوسری قسم کے کارڈ (پروڈکٹ) بنانے پر ہمارے دفتر والے ہمیں اپنی تنخواہ کے علاوہ ایکسٹرا تنخواہ بھی دیتے ہیں یا تنخواہ کا کچھ حصہ بھی دیتے ہیں، ابھی پچھلی دفعہ ہم نے دوسری قسم کی پروڈکٹ بنائیں، لیکن انہوں نے ہمیں ایکسٹرا پیسے نہیں دیے، اس دوسری قسم کی پروڈکٹ کے لیے،  کبھی ہم نے اپنے ٹائم سے لے کر 9 بجے سے لے کر پانچ بجے تک کام کیا، کبھی ہم نے پانچ کے بعد بھی کام کیا، کبھی رات دیر تک کام کیا، اب جب ہمیں ایکسٹرا پیسے نہیں دیے گئے تو ہمارے  باس  یعنی  انچارج نے ہمیں کہا کہ تم اور ٹائم فارم بھر کردو،  تاکہ اس طریقے سے آپ نے جو کام کیا وہ پیسے دوسرے طریقے سے مل جائیں، اور یہ طریقہ ہمارے انچارج کے اختیار میں ہے کہ اس طریقے کے ذریعے آپ کو مل جائے، لیکن اس طریقے میں مسئلہ یہ ہے کہ اس میں اور ٹائم فارم میں ہم وہ دن بھی لکھ لیتے ہیں جس دن ہم اپنی ڈیوٹی سے زیادہ رکتے نہیں ہیں، مثلاً ہم اتوار کو بھی اور ٹائم لکھ لیتے ہیں، حال آں کہ اکثر اوقات میں ہم ہفتہ اتوار کو کام نہیں کرتے اور کبھی کبھی ہم ہفتہ اتوار کو کام بھی کر لیتے ہیں، آیا یہ پیسے جو ہمیں ملتے ہیں وہ لینا جائز ہے یا نہیں؟  یاد رہے کہ یہ گھنٹے جو ہم لکھتے ہیں یہ فرضی ہوتے ہیں، حقیقت میں اس طرح نہیں ہوتے، اس کا مطلب صرف اور صرف ایک قسم کے پیسے دوسرے طریقے سے حاصل کرنا ہے اور یہ فارم دینا ضروری ہے ، کیوں کہ اس کے بغیر اکاؤنٹ سیکشن سے پیسے نہیں ملتے، کیوں کہ وہ بغیر ثبوت کے کسی اکاؤنٹ میں پیسے نہیں ڈالتے۔ لہٰذا میری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں صرف ان دنوں کے اورٹائم کا فارم بھراجاسکتا ہے جن دنوں میں اورٹائم لگایا تھا اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کمپنی کے ساتھ اورٹائم لگانے پر معاوضہ مقرر ہو یا یہ قانون چلاآرہا ہو کہ ملازمین زائد ڈیوٹی دیں تو وہ اورٹائم کے مستحق ہوں گے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں