بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد اللہ کی نعمت ہے


سوال

۱۔ اگر زید کی چار اولادیں ہیں اور وہ مزیداولاد نہیں چاہتا تو وہ کیا کرے؟

٢۔ اگر وہ ایسا چاہتا ہے تو اس پر شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے جس کی وجہ سے اللہ رب العزت ماں باپ کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: 

{وَلَا تَقْتُلُوْآ اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ}

ترجمہ: فقر و فاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ( قتل چاہے ظاہری طور پر کیا جائے یا حمل ٹھہرنے کے بعد بغیر کسی شرعی سبب کے اسقاط کرادیا جائے) ہم ان کو رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی (رزق دیتے ہیں)۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثیر الاولاد ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے (کی صلاحیت رکھنے )  والی ہو ؛ اس لیے کہ میں (روزِ قیامت) تمہاری (کثرت) کی وجہ سے باقی امتوں پر فخر کروں گا۔

’’قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: تزوجوا الودود الولود فأني مكاثر بكم الأمم‘‘. (مشكاة، كتاب النكاح)

لہذا صورتِ مسئولہ میں مستقل طور پر بچہ جننے کی صلاحیت ختم کروادینا جائز نہیں ہے،  تاہم اگر معاشی خوف نہ ہو (یعنی معاش کے خوف کی وجہ سے مانعِ حمل تدبیر اختیار نہ کی جائے) توحمل سے بچنے کے  عارضی اسباب اختیار کرسکتے ہیں، روزی دینے والے اللہ تعالیٰ ہی ہیں، جیسے وہ ہمیں روزی دے رہے ہیں، ہر آنے والے کو وہی رزق دیں گے۔ 

فتح الباری میں ہے:

’’لأن نفسه ليس ملكاً له مطلقاً، بل هي لله تعالي فلا يتصرف فيها إلا بما أذن فيه‘‘. (١١/ ٥٣٩)

فتاوی شامی میں ہے:

’’(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوي: إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فيعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها‘‘. ( باب نكاح الرقيق: مطلب في حكم العزل ٣/ ١٧٦، ط: سعيد)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں