بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اوراق مقدسہ کی حکم اور حفاظت کا طریقہ اس کی بے حرمتی کرنے والے کا حکم


سوال

اوراقِ مقدسہ کی حفاظت کا تفصیلی حکم عنایت فرمائیں۔  نیز حفاظت نہ کرنا اور غفلت برتنا اور قصداً اخبارات یا دیگر پرنٹڈ مواد کو کمرشل استعمال میں لانا اس کا کیا وبال خاص کر وہ بندہ جسے پتا بھی ہو یا بتادیا جائے کہ اس میں اللہ کا نام ہے اس کے باوجود استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

مقدس اوراق، کاغذات ، اخبارات اور دیگر اشتہارات  (جن پر قرآن پاک کی آیاتِ مبارکہ یا احادیثِ مبارکہ ہوں) کی جان بوجھ کر بے حرمتی کرنا کسی مسلمان کی شان سے بعید ہے۔ اور نہ ہی ایک کلمہ گو ایسی حرکت کرسکتا ہے، لہٰذا ایسی حرکت غلطی سے کرنے والوں کے بارے میں شریعتِ مطہرہ میں حکم عفو (معافی) اور آخرت کی پکڑ سے بری الذمہ کا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

’’عن ابن عباس أن رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم قال: إن اللّٰه تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرهوا علیه‘‘.   (رواہ ابن ماجہ، والبیہقی، باب ثواب ہذہ الامۃ، مشکوۃ، ص:۵۸۴،ط:قدیمی)

ترجمہ:’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا اورنسیان کو معاف کردیا ہے اور اس گناہ سے بھی معافی عطا فرمادی ہے جس میں زبردستی مبتلا کیا گیا ہو۔‘‘(مظاہر حق جدید، ج:۴،۵، ص:۸۵۹،ط:دار الاشاعت)

’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں ہے:  ’’الخطأ والمعنی: أنه عفا عن الإثم المترتب علیه بالنسبة إلی سائر الأمة‘‘.  (مرقاۃ المفاتیح،ج:۱،ص:۴۷۱،ط:امدادیہ)

البتہ اگرمعلوم ہو کہ اخبار کے تراشے میں قرآنی آیت ہے تو اُسے ادب سے رکھنا اور بے ادبی سے بچانا واجب ہے، عام اخبارات، رسائل اور ڈائریوں (جن میں آیتِ مبارکہ یا حدیثِ مبارک نہ ہو) کا یہ حکم نہیں، انہیں استعمال میں لایا جاسکتا ہے، مثلاً: فروٹ کی پیٹیوں میں رکھنا، اشیاء لپیٹ کر دینا یا بطورِ دسترخوان کے استعمال کرنا، اس حوالے سے بے جا تشدد بھی مناسب نہیں ہے۔

باقی رہا مذکورہ اخبارات، کاغذات، اشتہارات اور شادی کارڈز (کہ جس پر قرآنی آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ کے ترجمے شائع کیے جاتے ہیں) کے استعمال کے بعد ردی ہونے کی صورت میں بشمول قرآن کے مقدس بوسیدہ اوراق کے اُن کو کسی محفوظ مقام پر پاک کپڑے میں ڈال کر دفن کردیا جائے، یہی بہتر اور مذکورہ اشیاء کی توہین سے حفاظت کرنے کا احسن طریق ہے۔ علاوہ ازیں فقہاء نے ان مذکورہ اشیاء بشمول قرآن پاک کے مقدس بوسیدہ اوراق کی حفاظت کے اور بھی اسباب ذکر کیے ہیں،مثلاً: اگر مذکورہ اخبارات، اشتہارات اور شادی کارڈز وغیرہ اور مقدس بوسیدہ اوراق دُھل سکیں، تو حروف کو دھو کر ان کا پانی کسی کنویں یا ٹینکی یا کسی ایسی جگہ بہا دیں جہاں کسی قسم کی نجاست نہ پہنچ جائے اور اسی طرح مذکورہ تمام اشیاء بشمول مقدس اوراق کو کسی تھیلی میں ڈال کر اس میں پتھر وغیرہ ڈال کر  دریا یا سمندر یا کنویں میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔

 تاہم اگر ان اخبارات، کاغذات، اشتہارات، شادی کارڈز اور دیگر وہ تمام اشیاء جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقدس نام ہوں، تو ان اشیاء سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے مقدس ناموں کو مٹا یاجائے پھر ان کو کسی بھی دنیاوی کام کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
 باقی  اگر واقعۃً منع کرنے کے باوجود کوئی شخص اس کی بےحرمتی  کرتا ہے تو  اسلامی معاشرے میں کسی مسلمان کا دانستہ اورجانتے ہوئے ایساکرنا ایک بہت بڑاجرم ہے؛ اس لیے حکومتِ وقت اورانتظامیہ پرلازم ہے کہ وہ اپنی پوری ذمہ داری اوراحتیاط سے اس معاملہ کا جائزہ لے اور اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہونے والے افراد سے سخت بازپرس کرے اور مناسب سزادے اورآئندہ کے لیے ایسے اقدامات کرے جس سے لوگ اس مجرمانہ غفلت اورکوتاہی کے مرتکب نہ ہوں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:

’’الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذٰلک نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل‘‘.                        (فتاویٰ شامی،ج:۶،ص:۴۲۲،ط:سعید)

’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:

’’ویکرہ أن یجعل شیئاً في کاغذ فیها اسم اللّٰه تعالٰی کانت الکتابة علی ظاهرها أو باطنها‘‘.                          (فتاویٰ عالمگیری،ج:۵،ص:۳۲۲،ط:ماجدیہ)

وفیہ ایضاً

’’ولایجوز زلف شيء في کاغذ فیه مکتوب من الفقه، ولوکان فیه اسم اللّٰه تعالٰی أو اسم النبي یجوز محوه لیلف فیه شيء، کذا في القنیة ولو محا لوحًا کتب فیه واستعمله في أمر الدنیا یجوز.‘‘   (حوالہ بالا)

وفیہ ایضاً: 

''الأصل في وجوب التعزیر أنّ کلّ من ارتکب منکراً أواذیٰ مسلماً بغیرحق بقوله أو بفعله یجب التعزیر''…(فتاوی ہندیہ :2/168) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں