بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انسان کے تین والدین ہوتے ہیں، کیا یہ حدیث ہے؟


سوال

ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب میں ایک حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، آپ سے اس کی تصدیق چاہتا ہوں:  تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تجھے عدم سے وجود میں لایا ،دوسرا وہ جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، تیسرا وہ جس نے تجھے علم کی دولت سے مالامال کیا۔ کیا یہ روایت درست ہے؟

جواب

( انسان کے تین والدین ہوتے ہیں۔۔۔الخ) یہ بات حدیث سے ثابت نہیں، اور اس قول کے نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔

البتہ اساتذہ کرام کو مجازاً باپ قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ اساتذہ انسان کے روحانی وجود کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، جس طرح حقیقی والدین انسان کے وجودِ جسمانی کا سبب ہوتے ہیں، یہ مشائخ کے قول سے ثابت ہے۔

  رہی بات ساس سسر کی تو باعتبارِ حرمتِ مؤبدہ مثل حقیقی والدین کے ہوتے ہیں، باعتبارِ وراثت اور نسبت حقیقی والدین اور ساس سسر میں فرق ہے۔ البتہ اخلاقاً احترام اور خدمت میں ساس، سسر کو  والدین کا رتبہ دینا چاہیے، اگر حقیقی والدین اور ساس سسر  کی خدمت میں تعارض ہو تو حقیقی والدین کو ترجیح ہوگی، البتہ جہاں تعارض نہ ہو تو ساس سسر کی خدمت کو بھی والدین کے مثل جاننا چاہیے۔ اس لیے  کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جس طرح سے حقیقی والدین کو انسان کے لیے نعمت شمار کیا ہے، اسی طرح  سسرالی رشتوں کو بھی نعمت شمار کیا ہے، ارشاد ربانی ہے:  

"{فَجَعَلَهُ نَسَبًا و صِهْرًا} ...الآية " وَقَدْ قَالَ عُلَمَاءُ الْمُصْطَلَحِ : " الْأَشْيَاخُ آبَاءٌ فِي الدِّينِ، وَقَالَ لِي شَيْخَانِ: أَبُو التَّقِيِّ الشَّيْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ التَّغْلِبِيُّ الشَّيْبَانِيُّ أَغْدَقَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ عَلَى رَمْسِهِ : "شَيْخُك أَبُوك بَلْ أَعْظَمُ حَقًّا مِنْ وَالِدِك؛ لِأَنَّهُ أَحْيَاك حَيَاةً سَرْمَدِيَّةً وَلَا كَذَلِكَ وَالِدُك" أَوْ كَلَامًا هَذَا مَعْنَاهُ، وَقَالَ لِي : " النَّاسُ يَقُولُونَ: فُلَانٌ ـ يَعْنِي : نَفْسَهُ ـ لَا وَلَدَ لَهُ "، وَهَلْ لِأَحَدٍ مِنْ الْوَلَدِ مِثْلُ مَا لِي؟!، يَعْنِي : تَلَامِذَتَهُ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ " . (غذاء الألباب، ( ١/ ٣٩٠) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں