بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دینا


سوال

بخاری میں ہے کہ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے مجھے یونس علیہ السلام سے افضل کہا اس نے جھوٹ بولا۔ اور کسی کےلیے مناسب نہیں کہ وہ مجھے یونس علیہ السلام پر فضیلت دے۔ یہاں اشکال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمارے عقیدے کےمطابق حضور پاک سارے انبیاء  سے افضل ہیں۔ سارے انبیاء  میں تو  یونس علیہ السلام بھی آتے ہیں تو کیا اس طرح فضیلت بیان کرنے سے ہم حضور کے ارشاد کی مخالفت نہیں کر رہے ؟ اور کیا حضور پاک واقعتاً حضرت یونس سے افضل ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو اس حدیث کا کیا مطلب؟

جواب

بلاشبہ رسولِ اکرم ﷺ علیہ وسلم محبوبِ دو جہاں ، خاتم النبین، اور تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے سردار اور سب سے افضل وبرتر  ہیں، اس پر تمام امت کا اجماع ہے،  نیز دیگر انبیاء کرام علیہم السلام میں سے بعض کو  بعض پر اللہ تعالیٰ نے بعض اعتبار سے فضیلت عطا فرمائی ہے، ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہم انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات وخصوصیات کا ذکر مثبت انداز میں کریں، امتی کے لیے ایک نبی کا دوسرے نبی سے موازنہ کرنا اور ایک کو دوسرے پر فضیلت دینا خصوصاً جب کسی نبی علیہ السلام کی شان میں کمی  آتی ہو ،  اس سے ہمیں منع کیا گیا ہے، ورنہ رسولِ اکرم ﷺ نے خود اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے اپنی فضیلت واشگاف الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں،اور (اپنا مقام بیان کرنے میں مجھے) کوئی فخر نہیں ہے۔ باقی بعض روایات سے جو آپ کی دیگر انبیاء سے افضلیت کی نفی ہوتی ہے ، اس کی  وضاحت کے لیے متعلقہ  مسئلہ کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ ہو:

یہاں دو مسئلے الگ الگ ہیں:

(1) افضلیتِ انبیاء، یعنی  کسی نبی کو دوسرے نبی پر فضیلت ہے یا نہیں ؟ (2) یونس علیہ السلام کا تخصیص کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ۔

(1) حدیث مبارک میں  حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا: اللہ کی قسم جس نے محمد ( ﷺ ) کو سارے جہاں کے لوگوں میں سے بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے موسی علیہ السلام کو جہاں کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا، اس پر مسلمان نے (طیش میں آکر) یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا،  یہودی (شکایت لے کر ) نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اور آپ ﷺ کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم ﷺ نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورتِ حال کی تحقیق کی ، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ ﷺ کو جوں کی توں ساری بات بتادی ۔ نبی کریم ﷺ نے (فریقین کے بیانات سن کر ) فرمایا : مجھ کو موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو ؛ اس لیے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بے ہوش ہو کر گر جاؤں گا، پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا ، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو ) دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسی بےہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بے ہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ (اور بے ہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسی علیہ السلام کی بے ہوشی کو (قیامت کے دن کی ) اس بے ہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بے ہوش ہو کر گرپڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے ۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا ) اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے ۔"

 اور حضرت ابو سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو" ( بخاری ومسلم)

اور حضرت ابوہریرہ  کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔

اس حدیث مبارک  میں آپ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت بیان کی ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق  اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسی علیہ السلام بھی بے ہوش ہوجائیں گے ، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں ، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بے ہوش ہوجانے والوں  میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بے ہوش ہی نہیں ہوں گے، حال آں کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی ، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں۔اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے : " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔

مشكاة المصابيح (3/ 1591)

"وَعَنْهُ (أي أبي هریرة) قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَرَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ الْمُسْلِمُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا عَلَى الْعَالَمِينَ، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْعَالَمِينَ، فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ يَدَهُ عِنْدَ ذَلِكَ فَلَطَمَ وَجْهَ الْيَهُودِيِّ، فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ من أمره وأمرِ الْمُسلم، فَدَعَا النَّبِي صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى؛ فَإِنَّ النَّاسَ يُصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأُصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرَى كَانَ فِيمَنْ صُعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي أَوْ كَانَ فِيمَنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ» . وَفِي رِوَايَةٍ: " فَلَا أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَةِ يَوْمِ الطُّورِ أَوْ بُعِثَ قَبْلِي؟ وَلَا أَقُولُ: أَنَّ أَحَدًا أَفْضَلَ مِنْ يُونُسَ بنِ مَتَّى ".  وَفِي رِوَايَةِ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: «لَا تُخَيِّرُوا بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَة: «لَا تفضلوا بَين أَنْبيَاء الله»" (متفق علیه)

لیکن دوسری طرف   خود  قرآن پاک میں ارشاد ہے :  ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ﴾ [البقرة: 253]

 یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسولوں میں سے  بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے،  نیز خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :"عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر".  (سنن الترمذي ۔5/ 308)  یعنی میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں ،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔

تو ان دونوں قسموں کی نصوص میں علماء کرام نے مندرجہ ذیل طریقوں سے تطبیق دی ہے:

1۔۔ آپ ﷺ نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ آں حضرت ﷺ کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ،اور آپ کو  اپنے تمام انبیاء سے افضل ہونے کا علم نہیں تھا،  اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آں حضرت ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ ﷺ کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل واشرف کہنا درست ہے، لیکن یہ توجیہ زیادہ قوی نہیں ہے۔

2۔۔آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ تمام انبیاءِ کرام سے افضل  ہیں اور ان کے سردار ہیں، لیکن آپ ﷺ نے تواضع ، عاجزی اور انکساری کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا تھا۔

3۔۔ نفسِ نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو، کیوں کہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں ، خصائص وصفات کے لحاظ سے  افضل اور مفضول ہونے سے انکار نہیں ہے، جیسا کہ خود سورۂ بقرہ میں مؤمن کی یہ شان بیان کی گئی ہے  کہ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِه﴾ [البقرة: 285]  یعنی ہم کسی نبی اور رسول کے درمیان فرق نہیں کرتے  اور یہ نہیں کرتے کہ خدا کے سچے نبیوں میں ایک کو مانیں اور دوسرے کا انکار کریں۔

4۔۔ یایہ مراد ہے کہ نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر وتوہین لازم آئے ، یہ جواب سب سے قوی ہے، اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ  بلا شبہ انبیاء اور رسولوں کے درمیان فرقِ مراتب  ہے ،  انبیاء میں سے  بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، اور  اسی طرح  تمام انبیاء  کے درمیان  فضیلت دینے کی ممانعت بھی مذکور ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ  کسی نبی کو اس طرح دوسرے نبی  پر فضیلت دینا ممنوع ہے کہ جس سے  دوسرے نبی کی  تنقیص لازم آتی ہو، اسی طرح  ایسے موقع پر فضیلت دینے کی ممانعت کی گئی  جب کہ مسئلہ مجادلہ اور مناظرہ کی شکل اختیار کرلے ،  کیوں کہ ایسی صورت میں احتیاط کے باوجود انسان بے قابو ہوکر  دوسرے پیغمبر کے متعلق  ایسی باتیں کہہ جائے گا جو  ان کی توہین کا سبب  بنے گی، اور پیغمبر کی توہین کفر ہے۔

(2)   اور خاص کر یونس علیہ السلام کا ذکر فرما یا جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے  حضرت ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام ابن متی سے بہتر ہوں ۔" ( بخاری ومسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ میں یونس ابن متی سے بہتر ہوں تو یقیناً وہ جھوٹا ہے ۔

اس جملہ کے دو مطلب ہیں:

(1) کوئی عام شخص اپنے بارے میں کہے وہ یونس علیہ سے  بہتر ہے، اس صورت میں یہ جائز نہ ہونا بالکل ظاہر ہے کی کسی بھی امتی کے لیے ایسا کہنا قطعاً جائز نہیں۔

(2) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی  آپ ﷺ کو  ان پر فضیلت دے، اس صورت میں  اس کی وہی توجیہات ہیں جو  گزشتہ سطور میں ذکر ہوئیں ہیں ،اور ان روایات میں خصوصیت کے ساتھ حضرت یونس علیہ السلام کا جو ذکر ہے، یہ صرف اس لیے ہے کہ جو شخص بھی یونس علیہ السلام کے حالات اور واقعات کا مطالعہ کرے اس کے دل میں آپ کی ذاتِ اقدس کی تنقیص کا پہلو نہ آئے  کہ  جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذا پہنچائی تو  یونس علیہ السلام ان کو عذاب سے ڈرا کر  غصہ میں  قوم کو چھوڑ کر نکل گئے اور کشتی میں جابیٹھے تھے، لہٰذا ان کا یہ طرزِ عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا  درست ہے، لیکن آں حضرت ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے ۔ لہذا ان کی عظمت کے اس پہلو کو نمایاں کرکے  تنقیص کے اس خدشہ کا سدباب کیا۔

فتح الباري لابن حجر (6/ 452):

"قال العلماء: إنما قال صلى الله عليه وسلم ذلك تواضعاً إن كان قاله بعد أن أعلم أنه أفضل الخلق، وإن كان قاله قبل علمه بذلك فلا إشكال، وقيل: خص يونس بالذكر؛ لما يخشى على من سمع قصته أن يقع في نفسه تنقيص له، فبالغ في ذكر فضله؛ لسد هذه الذريعة".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (15/ 293):

"وَقَالَ الْخطابِيّ: معنى قَوْله لَا يَنْبَغِي لأحد إِلَى آخِره لَيْسَ لأحد أَن يفضل نَفسه على يُونُس، وَيحْتَمل أَن يُرَاد لَيْسَ لأحد أَن يُفَضِّلُنِي عَلَيْهِ قَالَ هَذَا مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  على مَذْهَب التَّوَاضُع والهضم من النَّفس وَلَيْسَ مُخَالفا لقَوْله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: أَنا سيد ولد آدم؛ لِأَنَّهُ لم يقل ذَلِك مفتخراً وَلَا متطاولاً بِهِ على الْخلق، وَإِنَّمَا قَالَ ذَلِك ذَاكِرًا للنعمة ومعترفاً بالمنة، وَأَرَادَ بالسيادة مَا يكرم بِهِ فِي الْقِيَامَة، وَقيل: قَالَ ذَلِك قبل الْوَحْي بِأَنَّهُ سيد الْكل وَخَيرهمْ وأفضلهم، وَقيل: قَالَه زجراً عَن توهم حط مرتبته لما فِي الْقُرْآن من قَوْله ﴿وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ﴾ وَهَذَا هُوَ السَّبَب فِي تَخْصِيص يُونُس بِالذكر من بَين سَائِر الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام قَوْله: " لَيْلَة أسرِي بِهِ " وَفِي رِوَايَة الْكشميهني: لَيْلَة أسرِي بِي على الْحِكَايَة قَوْله: " طوال " بِضَم الطَّاء قَوْله: " جعد الشّعْر " الْجَعْد خلاف السبط؛ لِأَن السبوطة أَكْثَرهَا فِي شُعُور الْعَجم، قَوْله: " وَذكر مَالِكًا " أَي وَذكر النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  لَيْلَة أسرِي بِهِ مَالِكًا خَازِن النَّار، وَذكر أَيْضاً الدَّجَّال، وَهَذَا الحَدِيث وَاحِد عِنْد أَكثر الروَاة، فَجعله بَعضهم حديثين: أَحدهمَا مُتَعَلق بِيُونُس، وَالْآخر بالبقية الْمَذْكُورَة ".

فتح الباري لابن حجر (6/ 446)

"قال العلماء في نهيه صلى الله عليه وسلم عن التفضيل بين الأنبياء: إنما نهى عن ذلك من يقوله برأيه لا من يقوله بدليل أو من يقوله بحيث يؤدي إلى تنقيص المفضول أو يؤدي إلى الخصومة والتنازع، أو المراد لا تفضلوا بجميع أنواع الفضائل بحيث لا يترك للمفضول فضيلة، فالإمام مثلاً إذا قلنا: إنه أفضل من المؤذن، لا يستلزم نقص فضيلة المؤذن بالنسبة إلى الأذان، وقيل: النهي عن التفضيل إنما هو في حق النبوة نفسها، كقوله تعالى: ﴿لا نفرق بين أحد من رسله﴾ ولم ينه عن تفضيل بعض الذوات على بعض؛ لقوله: ﴿تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض﴾. وقال الحليمي: الأخبار الواردة في النهي عن التخيير إنما هي في مجادلة أهل الكتاب وتفضيل بعض الأنبياء على بعض بالمخايرة؛ لأن المخايرة إذا وقعت بين أهل دينين لا يؤمن أن يخرج أحدهما إلى الإزدراء بالآخر؛ فيفضي إلى الكفر، فأما إذا كان التخيير مستنداً إلى مقابلة الفضائل لتحصيل الرجحان". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں