بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کے پیچھے دعائیں پڑھنے کا حکم


سوال

کیا جماعت کی نماز میں جب درمیان میں امام صاحب تسبیحات وغیرہ پڑھ رہے ہوتے ہیں اور ہم پڑھ چکے ہوں تو کیا ہم عربی یا اردو میں دعا مانگ سکتے ہیں؟

جواب

نماز کی مختلف حالتوں میں  احادیثِ مبارکہ  میں جو  مختلف اذکار و دعائیں وارد ہوئی ہیں فقہاءِ احناف نے ان تمام اذکار و ادعیہ کو فرائض کے علاوہ نوافل میں مسنون قرار دیا ہے۔ لہٰذا نوافل ہی میں ان کا اہتمام کرنا چاہیے، اور  نوافل میں بھی یہ دعائیں عربی زبان میں ہی مانگنی چاہییں، اردو میں دعا کرنا درست نہیں۔

ہاں! اگر مجمع زیادہ نہ ہو اور  مقتدیوں میں ضعیف نہ ہوں یا مقتدیوں پر بوجھ نہ ہوتاہو اور امام نماز لمبی پڑھاتا ہو (یا امام معتدل نماز پڑھاتا ہو لیکن مقتدی تین تسبیحات روانی سے پڑھ لے) جس سے مقتدی کو دعائیں پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے تو رکوع و سجود میں عربی دعائیں پڑھنے کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 505):
"(وليس بينهما ذكر مسنون، وكذا) ليس (بعد رفعه من الركوع) دعاء، وكذا لايأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح (على المذهب) وما ورد محمول على النفل".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 506):
"(قوله: محمول على النفل) أي تهجداً أو غيره خزائن. وكتب في هامشه: فيه رد على الزيلعي حيث خصه بالتهجد. اهـ. ثم الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع والسجود، وصرح به في الحلية في الوارد في القومة والجلسة وقال: على أنه إن ثبت في المكتوبة فليكن في حالة الانفراد، أو الجماعة والمأمومون محصورون لايتثقلون بذلك كما نص عليه الشافعية، ولا ضرر في التزامه وإن لم يصرح به مشايخنا فإن القواعد الشرعية لاتنبو عنه، كيف والصلاة والتسبيح والتكبير والقراءة كما ثبت في السنة".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں