امام سے پہلے سلام پھیرنےسے نمازمیں خلل آتا ہے یانہیں؟
اگر کسی مقتدی نے امام سے پہلے سلام پھیر دیا، اس کے بعد امام نے سلام پھیرا تو مقتدی کی نماز تو ہوگئی، البتہ مقتدی کے لیے ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، تاہم نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے، ہاں اگر سہواً یا کسی عذر کی وجہ سے یا وضو ٹوٹ جانے کا خوف ہو یا سخت مجبوری کی وجہ سے سلام پھیرا تو نماز مکروہ نہیں ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 525):
"ولو أتمه قبل إمامه فتكلم جاز وكره۔
(قوله: لو أتمه إلخ) أي لو أتم المؤتم التشهد، بأن أسرع فيه وفرغ منه قبل إتمام إمامه فأتى بما يخرجه من الصلاة كسلام أو كلام أو قيام جاز: أي صحت صلاته؛ لحصوله بعد تمام الأركان؛ لأن الإمام وإن لم يكن أتم التشهد لكنه قعد قدره؛ لأن المفروض من القعدة قدر أسرع ما يكون من قراءة التشهد وقد حصل، وإنما كره للمؤتم ذلك؛ لتركه متابعة الإمام بلا عذر، فلو به كخوف حدث أو خروج وقت جمعة أو مرور مار بين يديه فلا كراهة، كما سيأتي قبيل باب الاستخلاف (قوله: فلو عرض مناف) أي بغير صنعه كالمسائل الاثني عشرية وإلا بأن قهقه أو أحدث عمداً فلا تفسد صلاة الإمام أيضاً كما مر"۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200105
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن