بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعضائے وضو تین بار دھونا سنت ہے


سوال

بہت سے لوگوں کو وضو کرتے وقت یہ دیکھا ہے کہ بازو دھو لینے کے بعد ہتھیلیوں میں پانی لے کر اوپر سے نیچے بازؤں تک پانی بہاتے ہیں،  کیا یہ سنت ہے؟

جواب

وضو میں اعضائے وضو  تین بار دھونا سنت ہے، چاہے یہ تین بار دھونا چلو کے ذریعے پانی استعمال کرکے ہویا نلکے  کے ذریعہ اعضاء دھوئے جائیں۔البتہ نلکے کے نیچے اعضائے وضو کو تین بار دھونے کے بعد دوبارہ چلو میں پانی لے کر ہاتھوں پر بہانے کی حاجت نہیں، نہ ہی یہ سنت ہے، بلکہ اعضاءِ وضو میں سے جو عضو تین مرتبہ دھل چکا ہو اس پر مزید پانی نہیں بہانا چاہیے۔  

بخاری شریف میں ہے :

"عن حمران رأيت عثمان رضي الله عنه  توضأ فأفرغ على يديه ثلاثاً، ثم تمضمض واستنثر، ثم غسل وجهه ثلاثاً، ثم غسل يده اليمنى إلى المرفق ثلاثاً، ثم غسل يده اليسرى إلى المرفق ثلاثاً، ثم مسح برأسه، ثم غسل رجله اليمنى ثلاثاً، ثم اليسرى ثلاثاً، ثم قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ نحو وضوئي هذا، ثم قال: من توضأ وضوئي هذا ثم يصلي ركعتين لايحدث نفسه فيهما بشيء إلا غفر له ما تقدم من ذنبه". (3/40)

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله : وتثليث الغسل ) أي تكراره ثلاثاً سنة، لكن الأولى فرض والثنتان سنتان مؤكدتان على الصحيح، كذا في السراج. واختاره في المبسوط. الأولى أن يقال: إنهما سنة مؤكدة لاتوصف الثانية وحدها أو الثالثة وحدها بالسنية إلا مع ملاحظة الأخرى، والسنة تكرار الغسلات المستوعيات لا الغرفات، وإن اكتفى بالمرة الواحدة، قيل: يأثم؛ لأنه ترك السنة المشهورة، وقيل: لايأثم ؛ لأنه قد أتى بما أمره به ربه، كذا في الظهيرية. ولايخفى ترجيح الثاني؛ لقولهم: والوعيد في الحديث؛ لعدم رؤيته الثلاث سنة، فلو كان الإثم يحصل بالترك لما احتيج إلى حمل الحديث على ما ذكروا، وقيل: إن اعتاد يكره، وإلا فلا، واختاره في الخلاصة. وقد ذكروا دليل السنة: " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ مرةً مرةً وقال: هذا وضوء من لايقبل الله الصلاة إلا به، وتوضأ مرتين مرتين، وقال: هذا وضوء من يضاعف الله له الأجر مرتين، وتوضأ ثلاثاً ثلاثاً، وقال: هذا وضوئي ووضوء الأنبياء من قبلي، فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم ". (1/58)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں