بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعتکاف کے دوران حضرت عبد اللہ ابن عباس کا مسلمان کی حاجت روائی کے لیے مسجد سے باہر نکلنا


سوال

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  کے متعلق جو حدیث ہے کہ وہ مسجدِ نبوی میں معتکف تھے ایک حاجت مند کے ساتھ نکل گئے،  سوال یہ ہے کہ وہ اعتکاف روزے میں تھا؟  علماء فرما تے ہیں کہ روزے کے اعتکاف میں بغیر کسی شرعی عذر کے مسجد سے نکلنا جائز نہیں!

جواب

کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے کی بڑی فضیلت ہے، اورحدیث میں  اسے دس برس کے اعتکاف کے ثواب سے افضل قرار دیا گیا ہے، لیکن واجب یا مسنون اعتکاف میں کسی مسلمان کی حاجت راوئی کے لیے بھی مسجد سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اس کی قضا لازم ہوتی ہے، اگر نفلی اعتکاف ہو تو قضا لازم نہیں ہوتی۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی کا اعتکاف نفلی تھا، اور نفلی اعتکاف فاسد نہیں ہوتا، بلکہ مسجد سے نکلنے سے پورا ہوجاتا ہے۔ یا آپ کا اعتکاف تو مسنون تھا، لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہما نے ایک مسلمان کی حاجت روائی کے لیے ایثار کرکے اس کے لیے اپنا اعتکاف توڑدیا تھا۔ (معارف السنۃ ۔1/255)

علماءِ کرام کے اس کہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو آدمی مسنون اعتکاف کے دوران طبعی یا شرعی تقاضے کے علاوہ مسجد سے نکلے گا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا، اس لیے وہ باہر نہ نکلے، پھر اگر وہ باہر نکل گیا تو دیکھا جائے گا کہ کسی عذر سے نکلا ہے یا بلاعذر؟ اگر کوئی عذر نہیں، یا عذر شرعاً معتبر نہیں تو وہ گناہ گار ہوگا، اور ایک دن روزے کے ساتھ اعتکاف کی قضا لازم ہوگی، اور اگر عذر شرعاً معتبر ہو تب بھی اعتکاف تو فاسد ہوجائے گا، اور ایک دن کی قضا لازم ہوگی، البتہ گناہ نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں