بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اصیرم نام رکھنا


سوال

 انٹرنیٹ سے پتا چلا تھا کہ "اصیرم" صحابی کا نام یا لقب ہے جو کوئی نماز نہیں پڑھ سکے، مگر جنتی ہیں۔ کیوں کہ غزوہ احد کے وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، مگر مسلمانوں کی عارضی شکست کا علم ہونے پر ان کی مدد کے لیے شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔ کیا یہ درست ہے؟ اور اصیرم کے کیا معنی ہیں؟

جواب

جی ہاں! یہ درست ہے۔ ان کا نام عمرو بن ثابت رضی اللہ عنہ تھا، ’’اصیرم‘‘ لقب تھا، اصیرم ، ’’اصرم‘‘  کی تصغیر ہے، اس کے معنی ہیں ، چھوٹی تلوار۔

مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث 3600 میں ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے پوچھاکرتے تھے  کہ ایک ایسے آدمی کے متعلق بتاؤ جو جنت میں داخل ہوگا حال آں کہ اس نے نماز بھی نہیں پڑھی؟ لوگ جب اسے شناخت نہ کرسکتے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتے  کہ وہ کون ہے؟ وہ فرماتے: ’’اصیرم‘‘ جس کا تعلق بنو عبدالاشہل سے تھا، اور اس کا نام عمرو بن ثابت بن وقش تھا۔

حصین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’اصیرم‘‘ کا کیا واقعہ ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا: وہ اپنی قوم کے سامنے اسلام لانے سے انکار کرتا تھا، غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اُحد کی طرف روانہ ہوئے تو اسے اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے اسلام قبول کر لیا، پھر تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا۔
وہ لوگوں کے پاس پہنچا اور لوگوں کی صفوں میں گھس گیا اور اس بے جگری سے لڑا کہ بالآخر زخمی ہو کر گر پڑا، بنو عبدالاشہل کے لوگ جب اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے تو انہیں میدانِ جنگ میں وہ بھی پڑا نظر آیا، وہ کہنے لگے کہ واللہ یہ تو ’’اصیرم‘‘ ہے، لیکن یہ یہاں کیسے آگیا؟ جب ہم اسے چھوڑ کر آئے تھے تو اس وقت تک یہ اس دین کا منکر تھا، پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ عمرو! تم یہاں کیسے آگئے ؟ اپنی قوم کا دفاع کرنے کے لیے یا اسلام کی کشش کی وجہ سے؟ اس نے کہا کہ اسلام کی کشش کی وجہ سے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا اور میں مسلمان ہوگیا، پھر اپنی تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ جہاد میں شرکت کی، اب جو مجھے زخم لگنے تھے وہ لگ گئے، تھوڑی دیر میں وہ ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اہلِ جنت میں سے ہے۔

’’حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي الْحُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ يَقُولُ: حَدِّثُونِي عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ لَمْ يُصَلِّ قَطُّ؟ فَإِذَا لَمْ يَعْرِفْهُ النَّاسُ سَأَلُوهُ مَنْ هُوَ؟ فَيَقُولُ: أُصَيْرِمُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ عَمْرُو بْنُ ثَابِتِ بْنِ وَقْشٍ. قَالَ الْحُصَيْنُ: فَقُلْتُ لِمَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ: كَيْفَ كَانَ شَأْنُ الْأُصَيْرِمِ؟ قَالَ: كَانَ يَأْبَى الْإِسْلَامَ عَلَى قَوْمِهِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ بَدَا لَهُ الْإِسْلَامُ فَأَسْلَمَ، فَأَخَذَ سَيْفَهُ فَغَدَا حَتَّى أَتَى الْقَوْمَ فَدَخَلَ فِي عُرْضِ النَّاسِ، فَقَاتَلَ حَتَّى أَثْبَتَتْهُ الْجِرَاحَةُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا رِجَالُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ يَلْتَمِسُونَ قَتْلَاهُمْ فِي الْمَعْرَكَةِ؛ إِذَا هُمْ بِهِ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَلْأُصَيْرِمُ وَمَا جَاءَ، لَقَدْ تَرَكْنَاهُ وَإِنَّهُ لَمُنْكِرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، فَسَأَلُوهُ مَا جَاءَ بِهِ؟ قَالُوا: مَا جَاءَ بِكَ يَا عَمْرُو أَحَرْبًا عَلَى قَوْمِكَ أَوْ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: بَلْ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَسْلَمْتُ، ثُمَّ أَخَذْتُ سَيْفِي، فَغَدَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي، قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَلْبَثْ أَنْ مَاتَ فِي أَيْدِيهِمْ، فَذَكَرُوهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘. (الإصابه في تمييز الصحابة مؤلف : أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، ناشر : دار الجيل - بيروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں