بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی ملک میں غیر مسلم ، کافر / ذمی کو سرکاری عہدہ دینا


سوال

اگر کسی ذمی کافر کو کسی بھی سرکاری عہدے پر رکھا جاسکتا ہے اس کی قابلیت کی بنا پر تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ایک نصرانی کو سرکاری عہدے پر رکھنے سے منا کیا تھا ?

جواب

اسلامی ملک میں غیر مسلم کو عہدہ دینے کا حکم:

 شریعت مطہرہ  کی تعلیمات کے مطابق کسی بھی کافر کو مسلمان پر ولایت حاصل نہیں ہے، اور کافروں کے ساتھ میل، محبت اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی ممانعت قرآن وحدیث میں وارد ہے، اور انہیں اپنا معتمد یا مشیر   بنانے سے روکا گیا ہے، لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین اور فقہاء  نے صراحت کی ہے کہ مسلمان حکومت میں کسی بھی کافر کو  خواہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو کسی قسم کا  عمومی سرکاری عہدہ دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ سرکاری عہدہ دینے کا مطلب ان کو مسلمانوں پر ولایت دینا ہے  جو ناجائز ہے، اسی طرح عہدہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنا امین، معتمد اور خاص بنایا گیا جس سے قرآن کریم میں صراحتاً منع کیا گیا ہے، اور سرکاری عہدہ دینے میں حکومتی اور مملکتِ اسلامیہ کے معاملات میں ان سے بسا اوقات مشورہ بھی کیا جائے گا اور وہ قومی وملکی رازوں سے بھی واقف ہوں گے جس سے ملک، ملت اور ریاست کو قوی نقصان کا اندیشہ ہے۔ 

قرآن مجید میں ہے:
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ [اٰل عمران:118]

ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے سوا کسی کو صاحبِ خصوصیات مت بناؤ ، وہ لوگ تمہارے ساتھ فساد کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے، تمہاری مضرت کی تمنا رکھتے ہیں، واقعی بغض ان کے منہ سے ظاہر ہو پڑتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت کچھ ہے، ہم علامات تمہارے سامنے ظاہر کرچکے اگر تم عقل رکھتے ہو ۔ (بیان القران)

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

"اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی ملت والوں کے سوا کسی کو اس طرح کا معتمد اور مشیر نہ بناؤ کہ اس سے اپنے اور اپنی ملت و حکومت کے راز کھول دو ، اسلام نے اپنی عالم گیر رحمت کے سایہ میں جہاں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردی، خیر خواہی، نفع رسانی اور مروت و رواداری کی غیر معمولی ہدایات فرمائی ہیں اور نہ صرف زبانی ہدایات بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام معاملات میں اس کو عملی طور پر رواج دیا ہے وہیں عین حکمت کے مطابق مسلمانوں کی اپنی تنظیم اور ان کے مخصوص شعائر کی حفاظت کے لیے یہ احکام بھی صادر فرمائے کہ قانونِ اسلام کے منکروں اور باغیوں سے تعلقات ایک خاص حد سے آگے بڑھانے کی اجازت مسلمان کو نہیں دی جاسکتی کہ اس سے فرد اور ملت دونوں کے لیے ضرر اور خطرے کھلے ہوئے ہیں۔ اور یہ ایسا صریح، معقول، مناسب اور ضروری انتظام ہے جس سے فرد اور ملت دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، جو غیر مسلم اسلامی مملکت کے باشندے ہیں یا مسلمانوں سے کوئی معاہدہ کیے ہوئے ہیں ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی حفاظت کے لیے انتہائی تاکیدات اسلامی قانون کا جز ہیں، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

"من آذی ذمیاً فأنا خصمه، و من کنت خصمه خصمته یوم القیامة". (عن ابن مسعود)

" جس شخص نے کسی ذمی کو ستایا تو قیامت کے روز اس کی طرف سے میں دعوے دار بنوں گا، اور جس مقدمہ میں میں دعوے دار ہوں تو میں ہی غالب رہوں گا قیامت کے دن ".

ایک دوسری حدیث میں فرمایا :

 «منعني ربي أن أظلم معاهداً ولا غیره".(عن علی)

" مجھے میرے پروردگار نے منع فرمایا ہے کہ میں کسی معاہد یا کسی دوسرے پر ظلم کروں ".

ایک اور حدیث میں فرمایا :

«ألا من ظلم معاهداً أونتقصه أو کلفه فوق طاقته أو أخذ منه شیئاً بغیر طیب نفس منه فأنا حجیجه یوم القیامة".

" خبردار جو کسی غیر مسلم معاہد پر ظلم کرے، یا اس کے حق میں کمی کرے یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے، یا اس سے کوئی چیز بغیر اس کی دلی رضامندی کے حاصل کرے تو قیامت کے روز میں اس کا وکیل ہوں گا ".

لیکن تمام مراعات کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی جماعت اور ملت کی حفاظت کے لیے یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اپنا گہرا دوست اور رازدار معتمد نہ بنایا جائے۔

ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ فاروقِ اعظم حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) سے کہا گیا کہ یہاں ایک غیر مسلم لڑکا ہے جو بڑا اچھا کاتب ہے، اگر اس کو آپ اپنا میر منشی بنالیں تو بہتر ہو! اس پر فاروقِ اعظم نے فرمایا :

"قد اتخذت إذاً بطانة من دون المؤمنین" ۔

یعنی اس کو میں ایسا کروں تو مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے ملت والے کو راز دار بنالوں گا جو نصِ قرآن کے خلاف ہے "۔

امام قرطبی جو پانچویں صدی کے مشہور عالم اور مفسر ہیں بڑی حسرت اور درد کے ساتھ مسلمانوں میں اس تعلیم کی خلاف ورزی اور اس کے نتائجِ بد کا بیان اس طرح فرماتے ہیں :

"وقد انقلبت الأحوال في هذه  الأزمان باتخاذ أهل الکتاب کتبةً وأمناء، وتسودوا بذلک عند جهلة الأغنیاء من الولاة والأمراء".

یعنی اس زمانہ میں حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود و نصاری کو رازدار اور امین بنالیا گیا، اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہوگئے "۔

آج بھی کسی ایسی مملکت میں جس کا قیام کسی خاص نظریہ پر ہو وہاں اس نئی روش کے زمانے میں بھی کسی ایسے شخص کو جو اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا، مشیر اور معتمد نہیں بنایا جاسکتا۔ روس اور چین میں کسی ایسے شخص کو جو کمیونزم پر ایمان نہیں رکھتا ہو، کسی ذمہ دار عہدہ پر فائز نہیں کیا جاتا، اور اس کو مملکت کا رازدار اور مشیر نہیں بنایا جاتا، اسلامی مملکتوں کے زوال کی داستانیں پڑہیے تو زوال کے دوسرے اسباب کے ساتھ بکثرت یہ بھی ملے گا کہ مسلمانوں نے اپنے امور کا رازدار و معتمد غیر مسلموں کو بنا لیا تھا، سلطنتِ عثمانی کے زوال میں بھی اس کو کافی دخل تھا۔

آیتِ مذکورہ میں اس حکم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے  ﴿لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا﴾  یعنی "وہ لوگ تمہیں وبال و فساد میں مبتلا کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں رکھتے، اور تمہارے دکھ پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں، بعض تو ان کی زبانوں سے ظاہر ہو پڑتا ہے، اور جو کچھ وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اور بھی بڑھ کر ہے، ہم تو تمہارے لیے نشانیاں کھول کر ظاہر کرچکے ہیں، اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو"۔

مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی بھائیوں کے سوا کسی کو بھیدی اور مشیر نہ بنائیں؛ کیوں کہ یہود ہوں یا نصاری، منافقین ہوں یا مشرکین، کوئی جماعت تمہاری حقیقی خیر خواہ نہیں ہوسکتی، بلکہ ہمیشہ یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ تمہیں بے وقوف بناکر نقصان پہنچائیں اور دینی و دنیوی خرابیوں میں مبتلا کریں، ان کی آرزو یہ ہے کہ تم تکلیف میں رہو اور کسی نہ کسی تدبیر سے تم کو دینی یا دنیوی ضرر پہنچے، جو دشمنی یا ضرر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت ہی زیادہ ہے، لیکن بسا اوقات عداوت، غیظ و غضب سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا بھی ایسی باتیں کر گزرتے ہیں جو ان کی گہری دشمنی کا صاف پتا دیتی ہیں، مارے دشمنی اور حسد کے ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی، پس عقل مند آدمی کا کام نہیں کہ ایسے دشمنوں کو راز دار بنائے، خدائے تعالیٰ نے دوست دشمن کے پتے اور موالات کے احکام بتلا دیے ہیں، جس میں عقل ہوگی اس سے کام لے گا"۔(معارف القرآن )

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ  تحریر  فرماتے ہیں:

" یہاں جو غیر مذہب والوں سے خصوصیت کی ممانعت فرمائی ہے، اس میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کو اپنا ہم راز بنایا جائے اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنے خاص امور انتظامی میں ان کو دخل دیا جائے"۔ (بیان القرآن )

امام احمد بن علی ابو بکر الرازی الجصاص الحنفی (متوفی 370 ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 

" انسان کا بطانہ، ان لوگوں کو کہاجاتا ہے جو اس کے خاص ہوتے ہیں، اور اس پر اپنا حکم چلاسکتے ہیں، نیز جن پر وہ اپنے معاملات میں بھروسہ کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات سے روک دیا کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑکراہلِ کفر کو اپناراز داربنائیں اور اپنے خصوصی معاملات میں ان سے مدد کے طلب گارہوں۔ پھر اپنے قول ﴿لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا﴾  کے ذریعے مسلمانوں کو ان کافروں کے پوشیدہ جذبات سے آگا ہ کردیا جو یہ مسلمانوں کے متعلق رکھتے ہیں۔ اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کافرتمہارے معاملات کو خراب کرنے کے کسی بھی موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے؛ اس لیے کہ "خبال" کے معنی فساد کے ہیں۔

پھر فرمایا  ﴿وَدُّوْا مَاعَنِتُّمْ﴾ سدی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ لوگ تمہیں تمہارے دین سے گم راہ کرنے کی تمنا رکھے ہوئے ہیں۔ ابن جریج  کا قول ہے کہ یہ لوگ اس بات کے متمنی ہیں کہ تم اپنے دین کے معاملے میں مشقت میں پڑجاؤ، اور پھر تمہیں دین پر عمل پیرا ہونے میں مشقتیں برداشت کرنی پڑیں؛ اس لیے کہ "عنت" کے اصل معنی مشقت کے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی کہ انہیں ہر وہ چیز  عزیز ہے جو تمہاری مشقت اور نقصان کا سبب بنتی ہو۔ قول باری ہے : ﴿وَلَوْشَآءَ اللهُ لَاَعْنَتَکُمْ﴾  (اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا)۔

آیت اس بات پر دلالت کررہی کہ مسلمانوں کے معاملات میں اہل الذمہ سے مددلینا جائز نہیں ہے، مثلاً: کسی ذمی کو مسلمانوں کے کسی علاقے کا انتظام سپرد کردینا یا کسی حاکم یاعامل کا کسی ذمی کو اپنا کاتب وغیرہ۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے متعلق مروی ہے کہ جب آپ کو پتا چلا کہ آپ کے مقررکردہ گور نرحضرت ابوموسی اشعری (رضی اللہ عنہ) نے کسی ذمی کو اپنا کاتب بنالیا ہے تو آپ نے فوراً انھیں تحریری طورپرسرزنش کی، اور دلیل کے طورپر آیت ﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ﴾  کا حوالہ دیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جب انہیں ذلیل کردیا ہے تو تم اب انہیں عزت کا مقام نہ دو ۔

ابوحیان تیمی نے فرقدبن صالح سے، انہوں نے ابو دہقانہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے گزارش کی کہ ایک شخص "حیرہ" کا رہنے والا ہے (ہم نے اس جیسی یادداشت کا مالک اور اس جیسا خوش نویس کسی کو نہیں پایا) میراخیال ہے کہ آپ اسے اپنا کاتب مقرر کرلیں۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے یہ سن کر جواب دیا:  اگر میں ایسا کرلوں تو گویا میں مسلمانوں کو چھوڑکرغیروں کو اپنا راز دار بنانے کے جرم کا ارتکاب کروں گا۔

ہلال طائی وسق رومی سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا غلام تھا، آپ مجھے فرماتے تھے کہ تم مسلمان ہوجاؤ؛ اس لیے کہ تم مسلمان ہوجاؤگے تو میں تم سے مسلمانوں کی امانتوں میں مدد لوں گا، (یعنی مسلمانوں کے اجتماعی امور کی کوئی ذمہ داری دوں گا) ؛ اس لیے کہ میرے لیے جائز نہیں کہ مسلمانوں کی امانت میں مسلمانوں کے علاوہ کسی سے مدد لوں۔ میں نے (اسلام سے ) انکار کردیا، تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ﴿لا إكراه في الدين﴾پھر جب آپ کی وفات (شہادت) کا وقت آیا تو آپ نے مجھے آزاد کردیا اور فرمایا:جہاں جانا چاہو جاؤ!"

أحكام القرآن للجصاص (2/ 324)

"باب الاستعانة بأهل الذمة

قال الله تعالى: ﴿ يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم﴾ الآية قال أبو بكر: بطانة الرجل: خاصته الذين يستبطنون أمره، ويثق بهم في أمره، فنهى الله تعالى المؤمنين أن يتخذوا أهل الكفر بطانةً من دون المؤمنين، وأن يستعينوا بهم في خوص أمورهم، وأخبر عن ضمائر هؤلاء الكفار للمؤمنين، فقال: ﴿لا يألونكم خبالا﴾ يعني لا يقصرون فيما يجدون السبيل إليه من إفساد أموركم؛ لأن الخبال هو الفساد، ثم قال: ﴿ودوا ما عنتم﴾، قال السدي: ودوا ضلالكم عن دينكم. وقال ابن جريج: ودوا أن تعنتوا في دينكم فتحملوا على المشقة فيه؛ لأن أصل العنت المشقة، فكأنه أخبر عن محبتهم لما يشق عليكم، وقال الله تعالى: ﴿ولو شاء الله لأعنتكم﴾. وفي هذه الآية دلالة على أنه لا تجوز الاستعانة بأهل الذمة في أمور المسلمين من العمالات والكتبة، وقد روي عن عمر أنه بلغه أن أبا موسى استكتب رجلاً من أهل الذمة، فكتب إليه يعنفه وتلا: ﴿يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم﴾، أي لا تردوهم إلى العز بعد أن أذلهم الله تعالى. وروى أبو حيان التيمي عن فرقد بن صالح عن أبي دهقانة قال: قلت لعمر بن الخطاب: إن هاهنا رجلاً من أهل الحيرة لم نر رجلاً أحفظ منه ولا أخط منه بقلم، فإن رأيت أن نتخذه كاتباً! قال: قد اتخذت إذاً بطانة من دون المؤمنين. وروى هلال الطائي عن وسق الرومي قال: كنت مملوكاً لعمر فكان يقول لي: أسلم؛ فإنك إن أسلمت استعنت بك على أمانة المسلمين؛ فإنه لا ينبغي أن أستعين على أمانتهم من ليس منهم، فأبيت فقال: ﴿لا إكراه في الدين﴾! فلما حضرته الوفاة أعتقني، فقال: اذهب حيث شئت".

حضرت  مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"فقہاءِ کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان حاکم کے لیے یہ جائز نہیں کہ اہلِ ذمہ میں سے کسی کافر کو اپنا منشی اور پیش کار بنائے؛ اس لیے کہ وہ کافر مسلمانوں کا خیرخواہ نہ ہوگا، اور اسلامی حکومت کے راز اور امور مملکت سے اپنی ہم قوم حکومت کو مطلع کرے گا، بلکہ جن مسلمانوں وزیروں اور امیروں نے کسی غیر مسلم عورت سے نکاح کرلیایا اس کو اپنے گھر میں رکھ لیا تو پھر اسلامی حکومت کے راز غیر مسلموں پر ظاہر ہوئے اور اسلامی حکومت کو شدید نقصان پہنچا، اور ان غیرمسلم عورتوں نے مسلمان شوہر سے زائد اپنے ہم مذہب کافروں کی مصلحت کا لحاظ رکھا، جیسا کہ تجربہ اور تاریخ اس کی شاہد ہے، اور فاروقِ اعظم کا بھی یہی مسلک تھا کہ وہ غیر مسلم منشی اور پیش کار بنانے کو ناپسند فرماتے تھے، اور اسی آیت سے استدلال فرماتے تھے۔
 تنبیہ: شریعت اسلامی کا یہ حکم کہ غیر مسلم کو اپنا دوست اور راز دار  نہ بنایاجائے اور امورِ مملک میں اس کو دخیل نہ بنایا جائے عین حق اور عین حقیقت ہے، یہ امر بالکل بدیہی ہے کہ غیر مذہب والا اپنے مذہب اور اپنے اہلِ مذہب ہی کی خیرخواہی کرتا ہے، اور دوسرے اہلِ مذہب کی خیرخواہی نہیں کرتا،  ۔۔۔۔۔ افسو س کہ آج کل کے نام نہاد مسلمان جب اس قسم کا حکم سنتے ہیں تو اس کو تعصب اور تنگ نظری سمجھتے ہیں، حال آں کہ اگر ان کو اپنے حقیقی بھائی کی خیرخواہی پر اطمینان نہ ہو تو اس کو بھی اپنا بطانہ بنانا گوارا نہیں کرتے، مگر جب اللہ یہ فرماتا ہے کہ "اے مسلمانوں جو شخص اسلام کا اور مسلمانوں کا خیرخواہ نہ ہو، بلکہ ان کا دشمن اور حاسد ہو اس کو اسلامی حکومت میں کوئی عہدہ اور منصب نہ دو"  تو یہی لوگ اللہ کے اس قانون پر نکتہ چینی کرنے لگتے ہیں۔" (معارف القرآن ، مولف مولانا ادریس کاندھلوی)

حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:

کلیدی عہدوں پر غیر مسلم کی تقرری سے متعلق ایک عالمگیر اور حقائق پر مبنی ضابطہ :

" ایک اسلامی ریاست کے امیر اور ذمہ دار کلیدی عہدوں پر غیر مسلموں کا تقرر کرنا اور ان سے تعاون حاصل کرنا عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے؛ کیوں کہ غیر مسلم تو موقع کی تلاش میں رہیں گے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور ان کا راز فاش کرنے میں کوئی دقیقہ خالی نہ چھوڑیں گے۔ ایک دفعہ حضرت فاروقِ اعظم سے کہا گیا کہ ایک عیسائی لڑکا بہت ہی زیرک اور سمجھ دار ہے، اگر آپ اسے منشی مقرر فرمائیں تو بہتر ہے۔ حضرت فاروقِ اعطم نے اسی آیت کا حوالہ دے کر انکار فرما دیا :

"قیل لعمر بن الخطاب (رضي الله عنه): إن ههنا غلاماً من أهل الحیرة حفِظ کاتب، فلوا اتخذته کاتباً! فقال: قد اتخذت إذاً بطانةً من دون المؤمنین". (تفسیر ابن کثیر)

حضرت فاروق اعظم سے کہا گیا کہ یہاں حیرہ کا رہنے والا ایک منشی ہے جو کہ اس فن کو خوب جاننے والا ہے، آپ اس کو اپنے ہاں منشی رکھوائیں۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا: اس (غیر مسلم) کو منشی رکھنے سے قرآن کی (مندرجہ بالا) آیت کی مخالفت لازم آئے گی۔ اور اس وقت گویا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر غیر مسلم کو اپنا راز دان بناؤں گا۔

اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری جب گورنر تھے تو اپنے منشی کے ساتھ حضرت فاروقِ اعظم کے ہاں حاضر ہوئے، اتفاق سے حضرت فاروقِ اعظم کے پاس ایک خط آیا ہوا تھا، آپ اسے پڑھوانا چاہتے تھے، حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اپنے کاتب کی نشان دہی فرمائی۔ سارے لوگ مسجد میں چلے گئے، حضرت ابو موسیٰ نے عرض کی کہ امیر المؤمنین وہ کاتب تو نصرانی ہے، مسجد میں نہیں جاسکتا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو ڈیوٹی سے فوراً معزول کردو۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ تمام گورنروں کو خط لکھا کہ :"لا تستعملوا أهل الکتاب"۔ یعنی اہل کتاب سے اس طرح کے کام نہ لیا کرو۔ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کو اپنے پاس رکھو۔

میں (مفتی محمود) کہتا ہوں کہ ہماری ناکامی کے اسباب یہی ہیں کہ محض کلیدی عہدوں پر غیر مسلموں کو تعینات کرنا تو درکنار بدقسمتی سے ہماری پوری حکومت ہی باہر کی ہوتی ہے۔ 30 سال گزر گئے، لیکن ہمیں ایسی حکومت نصیب نہ ہوئی جو غیروں کے اشاروں اور سہاروں سے پاک ہو۔" (تفسیر محمود)

لہذا مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلامی حکومت میں کسی بھی غیر مسلم کو سرکاری عہدہ دینا جائز نہیں ہے، البتہ ایسے معاملات جو صرف اقلیتوں (غیر مسلم ذمیوں) سے متعلق  ہوں ان کے متعلق مشورہ وغیرہ کے لیے ان سے رائے لی جاسکتی، انہیں پر ان کو ذمہ دار بنایا جاسکتا ہے۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (2/ 253)

"والمعنى: لا تتخذوا الكافرين كاليهود والمنافقين أولياء وخواص من غير المؤمنين أو ممن لم تبلغ منزلته، منزلتكم في الشرف والديانة، والحكم عام وإن كان سبب النزول خاصاً فإن اتخاذ المخالف ولياً مظنة الفتنة والفساد؛ولهذا ورد تفسير هذه البطانة بالخوارج.

وأخرج البيهقي، وغيره عن أنس عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنه قال: «لا تنقشوا في خواتيكم عربياً، ولا تستضيئوا بنار المشركين».

فذكر ذلك للحسن فقال: نعم لا تنقشوا في خواتيمكم محمد رسول الله، ولا تستسروا المشركين في شيء من أموركم، ثم قال الحسن: وتصديق ذلك من كتاب الله تعالى: ﴿يا أيها الذين اٰمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم لا يألونكم خبالاً﴾".

المبسوط للسرخسي (16/ 93)

"ولا ينبغي للقاضي أن يتخذ كاتباً من أهل الذمة، بلغنا أن أبا موسى الأشعري قدم على عمر - رضي الله عنهما -، فسأله عن كاتبه، فقال: هو رجل من أهل الذمة، فغضب عمر - رضي الله عنه - من ذلك، وقال: لا تستعينوا بهم في شيء، وأبعدوهم وأذلوهم، فاتخذ أبو موسى كاتباً غيره ؛ ولأن مايقوم به كاتب القاضي من أمر الدين، وهم يخونون المسلمين في أمور الدين؛ ليفسدوه عليهم ،(قال) الله تعالى: ﴿لا تتخذوا بطانة﴾. [آل عمران: 118] الآية، وإن عمر - رضي الله عنه - أعتق عبداً له نصرانياً يدعى بحنس. وقال: لو كنت على ديننا لاستعنا بك في شيء من أمورنا . ولأن كاتب القاضي يعظم في الناس، وقد نهينا عن تعظيمهم قال صلى الله عليه وسلم : «أذلوهم ولا تظلموهم، ولا تتخذوا كاتباً مملوكاً ولا محدوداً في قذف، ولا أحداً ممن لا تجوز شهادته»؛ لأن الكاتب ينوب عن القاضي فيما هو من أهم أعماله، فلا يختار لذلك إلا من يصلح للقضاء، وربما يحتاج القاضي إلى الاعتماد على شهادته في بعض الأمور، أو يحتاج بعض الخصوم إلى شهادته، فلا يختار إلا من يصلح للشهادة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 309):

"(هو حر مسلم) بهذا يعلم حرمة تولية اليهود على الأعمال .

 (قوله: هو حر مسلم) فلا يصح أن يكون عبداً ؛ لعدم الولاية. ولا يصح أن يكون كافراً ؛ لأنه لا يلي على المسلم بالآية، بحر عن الغاية. والمراد بالآية قوله تعالى : ﴿ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا﴾ [النساء: 141] (قوله: بهذا إلخ) أي باشتراط الإسلام للآية المذكورة، زاد في البحر: ولاشك في حرمة ذلك أيضاً اهـ: أي لأن في ذلك تعظيمه، وقد نصوا على حرمة تعظيمه، بل قال في الشرنبلالية: وما ورد من ذمه أي العاشر فمحمول على من يظلم كزماننا، وعلم مما ذكرناه حرمة تولية الفسقة فضلاً عن اليهود والكفرة. اهـ.

قلت: وذكر في شرح السير الكبير: أن عمر كتب إلى سعد بن أبي وقاص: "ولا تتخذ أحداً من المشركين كاتباً على المسلمين ؛ فإنهم يأخذون الرشوة في دينهم، ولا رشوة في دين الله تعالى". قال: وبه نأخذ؛ فإن الوالي ممنوع من أن يتخذ كاتباً من غير المسلمين : ﴿لا تتخذوا بطانة من دونكم﴾ [آل عمران: 118] ". اهـ

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 209):

"(هو من نصب) أي نصبه الإمام (على الطريق)، احتراز عن الساعي، وهو الذي يسعى في القبائل؛ ليأخذ صدقة المواشي في أماكنها، فلا يصح أن يكون عبداً ولا كافراً؛ لعدم الولاية فيهما، ولا هاشمياً؛ لما فيه من شبهة الزكاة، وبه يعلم حكم تولية الكافر في زماننا على بعض الأعمال، ولا شك في حرمة ذلك". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں