بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل کی تدبیر کرنا


سوال

اگر کوئی اسقاطِ حمل کی کوشش اور ارادہ کرے،  یعنی حمل گرانے کی کوشش کرے، دوا سے یا tablet سے، اور وہ حمل بچ جائے یعنی ضائع نہ ہوا تو کیا حمل ضائع نہ ہونے کے صورت میں یہ عورت بھی گناہ گار ہے، اگر گناہ گار ہے تو کفارہ کیا ہو گا؟  بعض لوگ کہتے ہے کہ ارادہ اور کوشش کرنا بھی گناہِ کبیرہ ہے اور قتل کرنے کے گناہ کے برابر ہے۔  مہربانی کر کے اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب

اگر حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو   اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہے  تو اس جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور  شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا   کسی بھی وقت جائز نہیں، بلکہ بڑا گناہ ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر اسقاطِ حمل کے لیے تدبیر کسی عذر کے بغیر اختیار کی تھی تو نفسِ تدبیر بھی گناہ ہے خواہ یہ تدبیر کارگر نہ بھی ہو، اس لیے اس پر سچے دل سے اللہ رب العزت کے حضور توبہ و استغفار کرلیں۔

الدرالمختار مع الشامية، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره، ، کراچی ۶/ ۴۲۹:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان". (الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۵۶، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل". (الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں