بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاط حمل


سوال

میری بیٹی کو 19 ہفتوں کا حمل ہے، جب الٹرا ساؤنڈ کرایا تو علم ہوا کہ بچے کے دونوں پاؤں چھوٹے ہیں اور ایک مڑا ہوا ہے، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اسقاط کردیں کہ بعد میں اور خرابی کا امکان ہے اور اس بچے کی پرورش بھی مشکل ہے، کیا اس کی جازت ہے؟

جواب

120 دن گزرنے کے بعد حمل میں روح پڑجاتی ہے ؛ اس لیے اس کا اسقاط حرام ہے۔ نیز الٹرا ساؤنڈ میں بچے کی کسی بیماری کا علم یقینی نہیں، بلکہ گمان کے درجے میں ہوتا ہے، اور اگر یقینی بھی ہوتو اللہ پاک بقیہ مدت میں اس کی تکمیل پر قدرت رکھتے ہیں اوربالفرض آخر وقت تک بھی بچہ صحیح سالم نہ ہو پھر بھی اس کااسقاط جائز نہٰیں ؛ کیوں کہ بیمار انسان کو مارناجائز نہیں۔آپ اللہ پاک سے صحت یابی کی دعاکریں اورا س سے اچھی امید رکھیں ۔

 الدرالمختار مع الشامي، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره، ، کراچی ۶/ ۴۲۹۔
'' العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لا یستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان''۔ (هندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۵۶، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)
''وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل''۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵)


فتوی نمبر : 143909200335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں