بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استفتاء پراجرت لینے کا  کیا حکم ہے؟ 


سوال

استفتاء پراجرت لینے کا  کیا حکم ہے؟ 

جواب

’’استفتاء‘‘ کا معنی ہے سوال پوچھنا، ظاہر یہی ہے کہ سائل کی مراد ’’افتاء‘‘ (یعنی فتویٰ دینے) کی اجرت کے حوالے سے سوال کرنا ہے۔

زبانی فتوی پوچھنے پر مستفتی سے اجرت لینا جائز نہیں، البتہ اگر مفتی کو کسی ادارے یا کسی شخص نے فتوی دینے کے لیے مقرر کیا ہو اور مفتی اس کام کے لیے باقاعدہ وقت دیتا ہو تو وہ اس ادارے یا شخص سے اجرت لے سکتا ہے،اور اگر تحریری فتوی پوچھا جائے تو مستفتی سے اجرت لینے کی گنجائش ہے،تاہم اگر مفتی ضرورت مند نہ ہو تو اجرت نہ لینا افضل ہے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار  (6 / 92):
"( يستحق القاضي الأجر على كتب الوثائق ) والمحاضر والسجلات ( قدر ما يجوز لغيره كالمفتي ) فإنه يستحق أجر المثل على كتابة الفتوى؛ لأن الواجب عليه الجواب باللسان دون الكتابة بالبنان ومع هذا الكف أولى احترازاً عن القيل والقال وصيانةً لماء الوجه عن الابتذال، بزازية". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں