بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ ﷺ کی تاریخ وفات کی تحقیق


سوال

یہ بات مشہور ہے کہ ’’بارہ ربیع الاول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش یقینی نہیں ہے،  بلکہ اس سلسلے میں اقوال ہیں،  اگرچہ مشہور قول  بارہ  ربیع  الاول  کا ہے،  لیکن راجح اور محقق نہیں ہے۔  اس کے مقابلے میں بارہ  ربیع الاول  کے  دن  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یقینی ہے،  اس لیے بارہ  ربیع الاول  کو  یوم  ولادت  منانے  میں  دوسرے  پہلو  سے  رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے یوم  وفات  میں  خوشی منانا لازم آتاہے‘‘۔

میرا سوال یہ ہے کہ  کیا بارہ  ربیع الاول  کے  دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یقینی ہے؟  جب کہ سیرۃ المصطفی اور فتح الباری میں لکھا ہوا ہے کہ بارہ  ربیع  الاول  کے  دن  آپ ﷺ  کی وفات نہیں ہوئی۔۔۔   نیز حجۃ  الوداع  میں  بروزِ جمعہ  نو  ذوالحجہ  یومِ عرفہ  کے  موقع  پر ’’الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘‘ آیت نازل ہوئی، یہ صحیح  روایت  سے  ثابت ہے، اسی  طرح  یہ بھی  صحیح  روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال بروزِ پیر ہوا، اب ان دونوں صحیح روایات کو ملایا جائے اور اس کے مطابق اگر ایام اور مہینوں کی تاریخوں کا حساب لگایا جائے تو کسی طرح بھی بروزِ پیر بارہ ربیع الاول نہیں بنتی۔ اس حوالے سے آپ حضرات کی کیا تحقیق ہے؟ اور ہمارے بعض اکابر علماء کس بنیاد اور حوالے کی روشنی میں یہ کہتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول یقیناً وفات کا دن ہے؟

جواب

حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مستند قول کے مطابق 9 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571عیسوی کو ہوئی، ( اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے)۔ البتہ تاریخِ  وفات میں بھی اختلاف ہے،  محدثین ومؤرخین کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کی وفات بروز  پیر ہوئی ہے، اور وفات کا مہینہ ربیع  الاول کا تھا، البتہ  تاریخ کی  تعیین  کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں،  جن میں زیادہ مشہور  قول 12 ربیع الاول کا ہے۔  تاہم یہ قول محلِ اشکال ہے؛  اس لیے کہ اس پر سب کا اتفاق ہےکہ 9  ذی الحجہ 10ھ    یومِ عرفہ جمعہ کا دن تھا ،  اور اس کے بعد آپ تین ماہ بقید حیات رہے، ان تین ماہ میں چار  احتمالات ہیں:

1- تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) 30 دن کے ہوں۔

2- دو مہینے 30 دن کے ہوں، اور ایک مہینہ 29 دن کا ہو۔

3-دو مہینے 29 دن کے ہوں، اور ایک مہینہ 30 دن کا ہو۔

4- تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) 29 دن کے ہوں۔ (اور یہی احتمال محققین کے نزدیک راجح ہے)۔

ان چاروں احتمالات میں سے کسی بھی احتمال سے آپ کی وفات 12 ربیع الاول کو ثابت نہیں ہوتی، بلکہ محققین کے نزدیک آپ ﷺ کی تاریخ وفات 2 ربیع الاول ہے، اگرچہ اس میں 7 اور 8 کے اقوال بھی ملتے ہیں، اور  بارہ ربیع الاول کا قول علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور اس کا مدار ابن کثیر رحمہ اللہ نے اختلافِ مطالع پر رکھا ہے کہ اختلافِ مطالع کی وجہ سے تاریخ میں فرق آیا ہے، تاہم یہ توجیہ قوی نہیں ہے،  راجح قول دو ربیع الاول کا ہی ہے،  فلکیات کے ماہرین بھی حسابی اصولوں کے مطابق یکم یا دو کو ہی درست قرار دیتے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بارہ تاریخ کی شہرت کا سبب یہ بتایا ہے کہ بعض کتب میں "ثاني شهر ربیع الأول" لکھا گیا تھا، جسے "ثاني عشر"پڑھ لیا گیا، یوں وفاتِ نبوی کے متعلق بارہ ربیع الاول کی شہرت ہوگئی، اسی 2 ربیع الاول کے قول کو علامہ سہیلی نے روضۃ الانف میں اور علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں راجح قرار دیا ہے۔ بارہ ربیع الاول کے قول کی شہرت کی بنیاد  پر بعض اکابرین کی کتابوں میں میں بھی یہ درج ہوگیا ہے۔

’’جمع الوسائل فی شرح الشمائل‘‘ میں ہے:

’’قال في جامع الأصول: كان ابتداء مرض النبي صلى الله عليه وسلم من صداع عرض له، وهو في بيت عائشة، ثم اشتد به، وهو في بيت ميمونة، ثم استأذن نساءه أن يمرض في بيت عائشة فأذن له، وكانت مدة مرضه اثنا عشر يوماً، وقيل: أربعة عشر يوماً، ومات يوم الاثنين ضحى من ربيع الأول في السنة الحادية عشرة من الهجرة، قيل: لليلتين خلتا منه، وقيل: لاثنتي عشرة خلت منه، وهو الأكثر انتهى، ورجح جمع من المحدثين الرواية الأولى لورود إشكال سيأتي على الرواية الثانية، لكن يلزم على هذا الترجيح أن يكون الشهور الثلاثة نواقص، وهو غير مضر، وذكر في الجامع أيضاً أنه صلى الله عليه وسلم ولد يوم الإثنين، وبعث نبياً يوم الإثنين، وخرج من مكة يوم الإثنين، ودخل المدينة يوم الإثنين، وقبض يوم الإثنين، قال الحنفي: وهنا سؤال مشهور على إشكال مسطور، وهو أن جمهور أرباب السير على أن وفاته صلى الله عليه وسلم وقعت في اليوم الثاني عشر، واتفق أئمة التفسير والحديث والسير على أن عرفة في تلك السنة يوم الجمعة، فيكون غرة ذي الحجة يوم الخميس فلا يمكن أن يكون يوم الاثنين الثاني عشر من ربيع الأول سواء كانت الشهور الثلاث الماضية يعني ذا الحجة والمحرم وصفر ثلاثين يوماً أو تسعاً وعشرين، أو بعض منها ثلاثين وبعض آخر منها تسعاً وعشرين، وحله أن يقال: يحتمل اختلاف أهل مكة والمدينة في رؤية هلال ذي الحجة بواسطة مانع من السحاب وغيره، أو بسبب اختلاف المطالع، فيكون غرة ذي الحجة عند أهل مكة يوم الخميس، وعند أهل المدينة يوم الجمعة، وكان وقوف عرفة واقعاً برؤية أهل مكة، ولما رجع إلى المدينة اعتبروا التاريخ برؤية أهل المدينة، وكان الشهور الثلاثة كوامل ...‘‘ الخ (باب ما جاء في وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم:۲/۲۰۲،ط: المطبعة الشرفية، مصر ، طبع على نفقة مصطفى البابي الحلبي وإخوته) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں