بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ ﷺ کا سفر معراج جسمانی تھا یا روحانی ؟


سوال

کیا حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج روحانی تھی؟  اس کے متعلق علمائے دیوبند کا عقیدہ بھی واضح  فرمائیں!

جواب

جمہور محققین علماءِ کرام کے نزدیک آپ ﷺ کی معراج کا سفر جسمانی تھا، بعض آثار سے جو روحانی معراج کا معلوم ہوتا ہے اس میں علماء نے یہ تطبیق دی ہے ہے کہ آپ ﷺ کو  روحانی  معراج بھی ہوئی ہے اور جسمانی بھی ہوئی ہے، اور جو قرآن میں معراج کا مشہور واقعہ ہے اس میں جمہور صحابہ اور تابعین کی رائے اور راحج قول یہی ہے کہ یہ سفر بیداری کی حالت میں جسمانی ہوا ہے، اہلِ سنت والجماعت اور علماءِ دیوبند کا یہی موقف ہے۔

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ’’نشر الطیب‘‘  میں لکھتے ہیں:
’’تحقیقِ سوم:… جمہور اہلِ سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ معراج بیداری میں جسد کے ساتھ ہوئی اور دلیل اس کی اجماع ہے۔‘‘ (نشر الطیب ص:۸۰ مطبوعہ سہارنپور)

حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

"حضور ﷺاپنے جسم ِ مبارک کے ساتھ معراج میں تشریف لے گئے تھے ،اس لیے  آپ کی معراج جسمانی تھی ۔ ہاں اس جسمانی معراج کے علاوہ چند مرتبہ حضور ﷺکو خواب میں بھی معراج ہوئی ہے وہ منامی معراجیں کہلاتی ہیں؛ کیوں کہ "منام" خواب کو کہتے ہیں، لیکن حضور ﷺ کا خواب اور اسی طرح تمام انبیاء  علیہم السلام کے خواب سچے ہوتے ہیں، ان میں غلطی اور خطا کا شُبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس حضورﷺکی ایک معراج تو جسمانی معراج تھی اور چار یا پانچ معراجیں منامی تھیں "۔ (تعلیم الاسلام)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتےہیں:

"قرآنِ مجید کے ارشادات اور احادیثِ متواترہ سے جن کا ذکر آگے آتا ہے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں تھا، بلکہ جسمانی تھا، جیسے عام انسان سفر کرتے ہیں قرآنِ کریم کے پہلے ہی لفظ سُبْحٰنَ میں اس طرف اشارہ موجود ہے؛ کیوں کہ یہ لفظ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لیے استعمال ہوتا ہے، اگر معراج صرف روحانی بطورِ خواب کے ہوتی تو اس میں کون سی عجیب بات ہے! خواب تو ہر مسلمان، بلکہ ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا، فلاں فلاں کام کیے۔
دوسرا اشارہ لفظ "عَبْد" سے اسی طرف ہے؛ کیوں کہ عَبْد صرف روح نہیں، بلکہ جسم و روح کے مجموعہ کا نام ہے۔۔۔"  الخ۔(معارف القرآن 5/438)

اور علامہ سہیلی رحمہ اللہ ’’الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مہلب نے شرح بخاری میں اہلِ علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیا ہے کہ معراج دو مرتبہ ہوئی، ایک مرتبہ خواب میں، دوسری مرتبہ بیداری میں جسد شریف کے ساتھ۔‘‘ (ج:۱ ص:۲۴۴)

 اس سے معلوم ہوا کہ جن حضرات نے یہ فرمایا کہ معراج خواب میں ہوئی تھی، انہوں نے پہلے واقعہ کے بارے میں کہا ہے، ورنہ دوسرا واقعہ جو قرآنِ کریم اور احادیثِ متواترہ میں مذکور ہے، وہ بلاشبہ بیداری کا واقعہ ہے اور جسمانی طور پر ہوا ہے، یہی اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (4/ 260):
"قوله: (من زعم أن محمداً رأى ربه) اعلم أن رؤيته ثابتة لكنها لا بالعين بل بالقلب، والرؤية بالقلب والعلم مفترقان، ولي في هذا الدعوى رواية صحيح ابن خزيمة، وأما آية: {وما جعلنا الرؤيا التي أريناك} [الإسراء: 60] المراد بها الرؤية بالقلب في المعراج لا أن المعراج كان في المنام كما زعمه الجهلة، وفي رواية حسنة عن ابن عباس أن هذه الآيات وآيات سورة النجم: {ولقد رآه نزلة أخرى} [النجم: 13] واقعته مع الله لا مع جبريل، وقالت عائشة: إن الحال هذا مع جبرائيل، وما قال ابن عباس هو مقتضى نظم القرآن العزيز".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 3756):
"وفي شرح السنة: قال القاضي عياض: اختلف الناس في الإسراء برسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل: إنما كان جميع ذلك في المنام، والحق الذي عليه أكثر الناس، ومعظم السلف، وعامة المتأخرين من الفقهاء، والمحدثين، والمتكلمين، أنه أسري بجسده، فمن طالعها وبحث عنها، فلايعدل عن ظاهرها إلا بدليل، ولا استحالة في حملها عليه، فيحتاج إلى تأويل، وقيل: ذلك قبل أن يوحى إليه، وهو غلط يوافق عليه، فإن الإسراء أقل ما قيل فيه أنه كان بعد مبعثه صلى الله عليه وسلم بخمسة عشر شهراً. وقال الحربي: كان ليلة سبع وعشرين من شهر ربيع الآخر، قبل الهجرة بسنة، وقال الزهري: كان ذلك بعد مبعثه صلى الله عليه وسلم بخمس سنين، وقال ابن إسحاق: أسري به صلى الله عليه وسلم وقد فشا الإسلام بمكة، وأشبه هذه الأقوال قول الزهري وابن إسحاق، وقد أجمعوا على أن فرض الصلاة كان ليلة الإسراء، فكيف يكون هذا قبل أن يوحى إليه؟ وأما قوله في رواية شريك: وهو نائم، وفي الرواية الأخرى: بينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان، فقد يحتج به من يجعلها رؤيا نوم ولا حجة فيه، إذ قد يكون فيه ذلك حالة أول وصول الملك إليه، وليس في الحديث ما يدل على كونه نائماً في القصة كلها. وقال محيي السنة في المعالم: والأكثرون على ذلك. قلت: ومن القليل من قال بتعداد الإسراء نوماً ويقظة، وبه يجمع بين الأدلة المختلفة". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں