ایک قاری صاحب آن لائن اکیڈمی (جس میں قرآنِ پاک ناظرہ اور تجوید سکھائی جاتی ہے) میں پڑھاتے ہیں تو کیا وہ بچوں کو اپنی طرف کر سکتےہیں؟ آیا ایسا کرنا اس قاری صاحب کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے اگر کوئی ریفرنس آجائے تو کیا اس ریفرنس کو وہ قاری صاحب اپنی طرف کر سکتا ہے ہے یا وہ اکیڈمی کا حق ہوتا ہے؟
صورتِ مسئولہ آن لائن اکیڈمی میں پڑھانے والے قراءِ کرام اکیڈمی کے ملازم ہوتے ہیں، ان کا اکیڈمی کےطلبہ کو کم فیس کی آفر دے کر اکیڈمی سے ہٹ کر پرائیوٹ طور پر پڑھانا اور اکیڈمی سے اس کے کنٹریکٹ کو ختم کرادینا جب کہ اکیڈمی کی طرف سے اس کی ممانعت بھی ہو ، ادارہ کے ساتھ دھوکا، خیانت اور معاہدے کی خلاف ورزی ہے، اس لیے یہ جائز نہیں ہے۔
باقی ریفرنس کا مطلب اگر یہ ہو کہ آن لائن اکیڈمی میں پڑھنے والے بچے کے توسط سے کوئی اور بھی اسی قاری صاحب سے پڑھنا چاہ رہا ہے اور وہ اس اکیڈمی سے رابطہ کیے بغیر یاکمپنی کے وسیلے سے ہٹ کر از خود اس قاری صاحب کے پاس آتا ہے تو قاری صاحب کے لیے اس کو پڑھانا اور اجرت لینا جائز ہوگا، لیکن اگر وہ اس اکیڈمی میں ہی آرہا ہے تو قاری صاحب کے لیے بچے کو کم قیمت کی آفر کرکے اپنی طرف کرنا معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اگر ریفرنس کا مطلب کچھ اور ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال پوچھا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201655
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن