بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آغاخانی سے نکاح کا حکم


سوال

لڑکا آغانی خانی ہے اور لڑکی سنی ، دونوں نکاح کرنا چاہتے ہیں، دونوں کہتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے مذہب پر رہیں گے ، کیا یہ نکاح جائز ہے ؟

جواب

آغا خانی فرقہ اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے، مسلمانوں سے الگ ایک مستقل فرقہ ہے، اور کسی مسلمان کا کسی آغاخانی سے نکاح کرناجائز نہیں ہے۔ اس لیے اس سنی لڑکی کا نکاح آغاخانی لڑکے  کے ساتھ حلال نہیں اور ایسا نکاح  منعقدہی  نہیں ہوگا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ  ۭ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۭ اُولٰئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ  وَاللّٰهُ يَدْعُوْا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِه ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِه لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ} [البقرة: 221]

ترجمہ: اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان عورت (چاہے) لونڈی (کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ) بہتر ہے کافر عورت سے گو وہ تم کو اچھی ہی معلوم ہو۔  اور عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان مرد غلام بہتر ہے کافر مرد سے گو وہ تم کو اچھا ہی معلوم ہو (کیوں کہ) یہ لوگ دوزخ ( میں جانے) کی تحریک دیتے ہیں ۔ اور الله تعالیٰ جنت اور مغفرت کی تحریک دیتے ہیں اپنے حکم سے اور اللہ تعالیٰ اس واسطے آدمیوں کو اپنے احکام بتلادیتے ہیں تاکہ وہ لوگ نصیحت پر عمل کریں ۔ (بیان القرآن)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 271):

"ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلايجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى:{ولاتنكحوا المشركين حتى يؤمنوا}[البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببًا داعيًا إلى الحرام فكان حرامًا، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلايجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لايجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141] فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، و هذا لايجوز."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں