بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں بیوی کو مکان ہدیہ کرنا


سوال

میراسوال ایک مکان کے متعلق ہے ، ہم دوبھائی اور چھ بہنیں ہیں ،ہمارے والد نے اپنی وفات سے پہلے ہی مکان ہماری والدہ کو ہدیہ کردیاتھا، والد کی وفات کے بعد امی نے فیصلہ کیاکہ یہ مکان ہم دونوں بھائیوں کی ملکیت رہے گا اور ہم دونوں بھائی اپنی چھ بہنوں کو ایک ایک لاکھ روپے دیں گے ، جوہم دونوں بھائیوں نے مل کراداکردیاتھا ، اب کافی سال گزرنے کے بعدہماری ایک بہن تقسیم کے اس عمل سے اختلاف کرتے ہوئے مکان کے شرعی وراثت کے حصے کا دعویٰ کررہی ہے ، شریعت کی روسے اب اس مکان کی وراثت کاکیاحکم ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں مرحوم نے اگر اپنی اہلیہ (سائل کی والدہ )کومکان کا کلی طور پر بااختیارمالک بناکرخودبے دخل ہوگئے تھے تواس صورت میں مکان والدہ کا ہوچکااور والدہ کو اس مکان میں ہرطرح کے تصرفات کا مکمل اختیارہے البتہ زندگی میں اگر جائیداد اولاد میں تقسیم کی جائے تو بیٹے بیٹی سب برابر کے حق دار ہوتے ہیں کمی بیشی کرناٹھیک نہیں ہے ، اگر چہ کمی بیشی کے ساتھ کی جانے والی تقسیم نافذ ہوجائے گی اور بعدمیں کسی کومطالبہ کا حق نہیں ہوگا۔ لہذا اگر مذکورہ تقسیم میں بیٹے او ر بیٹیوں کے درمیان برابری کاخیال رکھاگیاہے تو ٹھیک ہے،اور اب کسی کو مطالبہ کا حق نہیں ہے اور اگر کمی بیشی کی گئی ہے تو تقسیم تو بہر حال نافذ ہے مطالبہ کا حق نہیں ہے ، لیکن اس تفاوت کی وجہ سے والدہ گنہگارہوںگی۔اوراگر والدمرحوم نے والدہ کو بااختیارمالک نہیں بنایاتھا ، صرف زبانی کلامی یاتحریری ہدیہ تودے دیاتھا لیکن اپنی زندگی میں عملاًوہ خودہی مالک ومتصرف تھے تو اس صورت میں مکان والدہ کی ملکیت نہیں ہوا ، بلکہ بدستور مرحوم کی ملک رہاجوان کی وفات کے بعد انکے شرعی ورثاءمیں بقدرحصص تقسیم ہوگا ، بیوی کو آٹھواں حصہ اور بقیہ ترکہ اولادمیں تقسیم ہوگا، بیٹوں کو بیٹیوں کی بنسبت دوگناملے گا۔اور بیٹیوں کو جورقم بیٹوں سے دلوائی گئی ہے اسکی حیثیت متعین کرکے اس کے مطابق فیصلہ ہوگا، اگر وہ تبرع او راحسان تھا تو وہ ان کی ملک ہوچکا، اور اگر والدکی میراث کا حصہ تھا تو اتنی رقم منہاکرکے بقیہ کی ادائیگی کردی جائے ۔واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں