بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ظالم سے بدلہ لینے کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ کیا ظالم کو معاف کردینا چاہئے ؟اگر کوئی مجھ پر ظلم کرتا ہے اور میں اس کو معاف نہیں کرتا تواس کاکیا حکم ہے ؟اوراگر وہ ظالم مسلمان ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟اوراگروہ ظالم غیرمسلم ہواوراس نےآپ پرظلم و زیادتی کی ہواورآپ یہ نیت کرلیں کہ اگریہ شخص مسلمان ہو گیاتومیں نےاس کو معاف کیااوراگر یہ غیرمسلم ہی مرگیاتومیں نے اس کو معاف نہیں کیا،کیااس طرح کرنایا ایسی نیت کرنا صحیح ہے ؟یہاں ظلم سے میری مراد بڑی ناانصافی اوردھوکہ وغیرہ ہے جس سے اس نےآپ کونقصان پہنچایاہو۔براہِ کرم جلدازجلد شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورت مسؤ لہ میں مظلوم کو اختیار ہے چاہے ظالم سے برابر کا بدلہ لے،بدلہ لینے میں زیادتی نہ کرے اور بدلہ خودنہ لے بلکہ قانونی ذرائع سے لے۔اگر چاہے تو ظالم کومعاف کردے ،اگر کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو معاف کرنا زیادہ بہتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے پر اجرعطاء فرمائینگے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : ترجمہ: اور برائی کا بدلہ ہے برائی ویسے ہی،پھر جوکوئی معاف کرے اورصلح کرے سو اس کا ثواب ہے اللہ تعالیٰ کے ذمہ، بیشک اس کو پسند نہیں آتے گناہ گار۔الشوریٰ :40 2۔اگر ظالم کو معاف نہیں کیا بلکہ بدلہ لیاتو یہ گناہ نہیں۔ 3۔ظالم چاہے مسلمان ہو یا غیرمسلم، دونوں کاایک ہی حکم ہےجو2 میں گزرگیا۔ 4۔مذکورہ نیت میں کوئی شرعی ممانعت نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں