بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولی کی اجازت کے بغیر عاقلہ بالغہ کا نکاح اس کی رضامندی سے جائز ہے


سوال

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہمیرا نام حسان ہے، میں حافظِ قرآن اور کراچی یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کررہاہوں۔ ایک اچھے سلجھے ہوئے اور امیرخاندان سے تعلق ہے۔ میں اس وقت انتہائی سنگین مسئلے کا شکار ہوں اس مسئلے کی وجہ سے میری دنیا اور آخرت دونوں داؤ پر لگ گئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں نے جس لڑکی سے شادی کی ہے اس کی والدہ اور بہن بھائی غیرملکی ہیں، وہ اس لڑکی کو چھوڑکر کینیڈا چلے گئے تھے وہ یہاں اکیلی تھی اور اس کا کوئی سہارانہ تھا،بنا اس کی فکر اور پروا کیے ہوئے اس کوبالکل تنہا چھوڑکر سب چلے گئے۔ میں نے اس لڑکی کا سہارا بننے کے لیے اس سے شادی کرکے اس کوایک فلیٹ لے کردیا اس کے سب اخراجات کی ذمہ داری لی۔ ہمارا نکاح میرے ایک قریبی مولاناصاحب نے چار گواہوں کی موجودگی میں اور لڑکی کی اجازت سے پڑھایا۔ اور ماشاء اللہ اب ہم خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ آج میری ایک مولاناصاحب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ لڑکی کے ولی کی اجازت کے بغیر تم نے اس سے نکاح کیا، بے شک اس کاسہارا بنے، پر حدیث کے مطابق یہ نکاح باطل ہے اورتم اس سے زنا کرچکے، تم دونوں کے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کی اس بات کے بعد میری راتوں کی نیند حرام ہوگئی اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ برائے مہربانی مدد فرمائیں اور وضاحت فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟جزاک اللہ تعالیٰ خیراً

جواب

عاقلہ بالغہ لڑکی کانکاح ﴿اس کی رضامندی سے﴾ ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہوجاتاہے۔ بصورتِ مسؤلہ مذکورہ لڑکی عاقلہ بالغہ ہے اورچارگواہوں کی موجودگی میں اس کی رضامندی سے نکاح کیا گیاہے لہٰذا نکاح شرعاً منعقد ہوچکاہے، میاں بیوی کا تعلق جائزہے۔ مذکورہ مولاناصاحب کی بات درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200695

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں