بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وفات نبوی کی تاریخ کی تحقیق


سوال

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات پر آج کل مختلف اقوال پیش  کیے جاتے ہیں، جب کہ آقا نے آخری خطبہ حج 9 ذی الحج بروز جمعہ کو ادا کیا،اس لحاظ سے آقا کے وصال کی تاریخ یکم یا دو ربیع الاول بنتی ہے اور جمہور 12 ربیع الاول کے قائل ہیں، آپ کی ویب سائٹ پر بھی وصال کی تاریخ  12 ربیع الاول درج ہے۔ اس مسئلے میں رہنمائی  فرما دیں!

جواب

اس بات تو سب کا اتفاق ہےکہ ولادت کا دن پیر ہے اور  اسی روز آپ کی وفات  بھی ہوئی، اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے متعدد طرق سے ایک روایت  بھی مروی ہے، لیکن تاریخ کا ذکر کسی روایت میں نہیں ملتا۔ 
اکثر اہل سیر نے 2 کا اور بعض نے یکم کا قول اختیار کیا  ہے،  فلکیات کے ماہرین حسابی اصولوں کے مطابق یکم یا دو کو ہی درست قرار دیتے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بارہ تاریخ کی شہرت کا سبب یہ بتایا ہے کہ بعض کتب میں "ثاني شهر ربیع الأول"  لکھا گیا  تھا، جسے  "ثاني عشر"پڑھ لیا گیا،  یوں وفاتِ  نبوی کے متعلق بارہ ربیع الاول کی شہرت ہوگئی،  حال آں کہ یہ بات مسلم ہے کہ حجة الوداع کا خطبہ آپ ﷺ نے جمعے کے دن 9 ذوالحجہ کو دیا  تھا،  اس حساب سے پیر کے روز بارہ ربیع الاول کی تاریخ نہیں بنتی۔

بہرکیف اس مسئلے میں محققین کے ہاں بارہ کا قول درست نہیں، ہماری ویب سائٹ پر مشہور قول کے  ساتھ دوسرے  دو اقوال  بھی مذکور ہیں۔  اور علامہ سہیلی وحافظ ابن حجر رحمهما للہ کے حوالے سے ان کی ترجیح  بھی ذکر کی گئی ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143604200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں