بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

uloanسروس اور اسکا حکم


سوال

السلام علیکم !ایک سوال کا جواب درکار ہے۔ آج کل ہمارے ہاں پاکستان میں کام کرنے والی مختلف کمپنیز صارفین کو قرض کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اب یہ قرض صارف صرف کال کرنے یا میسج بھیجنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اس رقم (قرض) کو کہیں اور استعمال کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ رقم صرف کال یا میسج کے لیے استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ یہ پابندی بھی رکھی گئی ہے کہ اگر یوفون کا پندرہ روپے کا قرض لیا جائے تو اس کے بدلے میں پندرہ روپے اور ساٹھ پیسے واپس لیے جاتے ہیں، اسی طرح دیگر کمپنیوں موبلنک اور ٹیلی نار کا بھی ایک مقررہ حد تک اضافی پیسے شامل ہیں۔یہاں پر یہ وضاحت درکار ہے کہ کمپنیز کہتی ہیں کہ یہ گورنمٹ کی طرف سے ٹیکس کی مد میں ہے جو صارفین کو سہولت فراہم کرنے کے بدلے لیا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ رقم اضافی جو لے رہے ہیں سود کے زمرے میں شامل ہے یا نہیں؟نیز حضرت مفتی صاحب عرض ہے کہ سود کی تعریف کیا کہلائے گی؟

جواب

کمپنی خود صارف کو ائیر ٹائم فروخت کرے یا کسی سے خرید کر صارف کو فروخت کرے بہر دو صورت صارف کمپنی کا پندرہ روپے کا مدیون ( مقروض ،صارف کے ذمے واجب الادا) ہو جاتا ہے جبکہ مقروض سے قرضے کی مقدار سے زائد وصولی سود کہلاتی ہے۔ اس لیے کمپنی جو زائد ساٹھ پیسے کاٹتی ہے وہ سود ہے البتہ اگر کمپنی پندرہ روپے لون دے کر اوپر ساٹھ پیسے وصول نہ کرے بلکہ شروع ہی سے پندرہ روپے ساٹھ پیسے کا پیکج رکھے صارف کو پندرہ روپے کے بقدر خدمت وسہولت فراہم کرے اور پندرہ روپے ساٹھ پیسے اس کے عوض وصول کرے تو جائز ہو گا۔ جیسا کہ پندرہ روپے کی چیز خرید کر پندرہ روپے ساٹھ پیسے پر فرخت کرنا جائزہے مگر پندرہ روپے کی فروخت کرکے پندرہ روپے خریدار کے ذمہ لازم ہونے کے بعد پندرہ روپے کے بجائے پندرہ روپے ساٹھ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔
اس تفصیل سے دونوں صورتوں کا فرق بھی واضح ہو گیا۔ پہلی صورت میں واجب الاداء رقم سے زائد کی وصولی ہے جبکہ دوسری صورت میں حسب معاہدہ واعلان اجرت کی وصولی ہے۔
جواز کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کمپنی ساٹھ پیسے *456#پر میسج بھیجنے کی اجرت وصول کرلے اور اتنی اجرت وصول کرے جتنی عام طور پر ایک میسج کی وصول کرتی ہے ۔پندرہ روپے قرض دینے کی بناء پر زیادہ وصول نہ کرے ۔نیز صارف کے سامنے وضاحت بھی کردے کہ ساٹھ پیسے لون (خدمات) منگوانے کے لئے بھیجے گئے مسیج کے بدلے میں کاٹے گئے ہیں۔
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200609

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں