بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرح الوقایہ کی ایک عبارت کی تشریح


سوال

فقہ کی کتابوں میں کپڑے کے لئے ذرع گز کو وصف قرار دیا گیا ہے جس کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے کپڑے کے ثمن میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کما فی شرح الوقایۃ اخرین ص13 مکتبہ رحمانیہ و ان باع المذروع ھکذا ای مثلا باع ثوبا و نحوھا علی انہ مأۃ اذرع وھی اقل أو اکثر اخذ الاقل بکل الثمن أو ترك والاکثر لہ بلا خیار للبائع الخ سوا ل یہ ہے کہ کیا آج کل بھی اسی قاعدے کے موافق کپڑے کی تجارت کی جائے گی جبکہ بازار میں کپڑے کے لئے ذرع حسن اور قبح کی علامت متصور نہیں ہوتی بلکہ قلۃ و کثرت ِاجزا کے لئے معیار ہے؟

جواب

آج کل بھی مسئلہ اسی طرح ہے جس طرح کہ کتبِ فقہ میں درج ہے، البتہ اگر کپڑے کی بیع فی گز کے حساب سے کی جیسا کہ رواج ہے کہ فی گز اتنے کا، تو اس صورت میں گز وصف نہیں رھیگا بلکہ مقدار بن جایئگا اور کمی بیشی کی صورت میں رجوع کا اختیارہوگا اور اگر فی گز کے حساب سے نہ کی اور کل کی بیع کی اس طرح کہ یہ تھان مثلا 20میٹر کا اتنےکا ھے،ہرہرگز کی الگ الگ قیمت مقرر نہیں کی تا اس صورت میں گز کا ذکر بطور وصف ہوگا اور کمی بیشی کی صورت رجوع کا اختیار نہیں ھوگا۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143411200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں