بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس سسر اور بہو کے تعلقات


سوال

السلام علیکم، کیا شریعت میں ساس اور سسر کے بہو اور داماد پر کوئی حقوق ہیں؟ کیا ساس اپنی بہو کے معاملات زندگی میں مداخلت کرسکتی ہے؟ کیا ساس بہو سے کھانا پکانے کا کہہ سکتی ہے؟ کیا وہ بہو کے میکے جانے پر اعتراض کرسکتی ہے؟ جوائنٹ فیملی سسٹم میں گھر کے بڑے کی حیثیت سے تو اس طرح کے احکامات دیے جاتے ہیں اور اخلاقی طور پر بہو ان باتوں کو مانتی بھی ہے، یا اگر نہیں مانتی تو گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ لہذا شریعت میں اس کا کیا حکم ہے، برائے مہربانی وضاحت کردیں اور مزید معلومات کے لیے کوئی کتاب بھی تجویز کردیں۔ شکریہ۔

جواب

جس گھر میں ساس سسر اپنی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی نہ سمجھیں یا بہو اپنے ساس سسر کو اپنے حقیقی والدین کا درجہ نہ دے تو پھر اسی طرح کے سوالات و شکایات جنم لیتے ہیں۔ بہرحال بیوی پر اپنے شوہر کے والدین کی خدمت، ان کے لیے کھانا پکانا وغیرہ شرعاً تو لازم نہیں، لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے حقیقی والدین کی طرح اپنے ساس سسر کی عزت و احترام کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت بھی کرے تو یہ اس کے لیے دنیا میں باعث خیر و برکت اور آخرت میں باعث اجر و ثواب ہے، اور اچھے اخلاق کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اسی طرح ساس سسر بھی اپنی بہو پر اپنی حقیقی بیٹی کی طرح شفقت کریں، اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں، تو گھر کا ماحول بھی خوشگوار ہوگا اور کسی ایک کو دوسرے سے شکایت بھی نہیں ہوگی۔


فتوی نمبر : 143408200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں