بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کی حکمت وفلسفہ


سوال

پہلا سوال: اگر میرے گھر میں دو افراد ہیں جن پر قربانی واجب ہے تو کون سا عمل بہتر ہو گا ؟

١- دو قربانی گھر پر کرنا اور قربانی کر کے گوشت تقسیم کے بعد فریزر میں محفوظ کرلینا ؟٢- ایک قربانی گھر پر کرنا اور دوسری قربانی کی رقم کسی فلاحی ادارے کو دے دینا ؟

دوسرا سوال :کسی ایسے رشتہ دار یا عزیز کو قربانی کا گوشت تقسیم کرنا جائز ہے جس نے خود بھی اپنے گھر میں قربانی کی ہو ؟ آج کل تو یہ عام رواج ہے، لیکن میرا ذہن اس رواج کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے، کیوں کہ قربانی کا اصل مقصد حکمِ الہی اور سنتِ ابراہیمی کو پورا کرتے ہوۓ غرباء کی مدد کرنا ہے نا کہ گوشت صرف اس بنا پر دینا کہ رشتہ داری کا معاملہ ہے یا اپنے تعلقات کو کسی غرض کے تحت بہتر بنانے کے لیے گوشت دینا - براہ مہربانی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

مذکورہ صورتوں میں سےخوداپنے ہاتھ سے قربانی کرنا کسی اور کو قربانی کے لیے رقم دینے سے افضل ہے، البتہ خود قربانی کر کے اس قربانی کا گوشت کسی مستحق فلاحی ادارہ کو دے کر قربانی کی فضیلت کے ساتھ ساتھ صدقہ کی فضیلت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ قربانی کے گوشت کے بارے میں مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصہ کرلیے جائیں، ایک اپنے لیے، دوسرا اعزہ واقارب کے لیے، تیسرا فقراء ومساکین کے لیے ، اس لیے کہ قربانی درحقیقت اللہ پاک کی طرف سے اپنی مخلوق کی مہمانی ہے،اس لیے ہر امیر وغریب اس مہمانی کا حق دار ہے، لہٰذا جن رشتہ داروں نے قربانی کی بھی ہو ان کو قربانی کا گوشت دینا صرف جائز ہی نہیں، بلکہ مستحب ہے،اس میں صلہ رحمی بھی ہے، اور قربانی کے گوشت کی صحیح تقسیم بھی، اور صلہ رحمی مستقل نیک عمل بلکہ  گویا عبادت ہے، نیز صدقے میں بھی افضل صدقہ وہ ہوتاہے جو رشتہ داروں پر صرف کیا جائے، بہت سی احادیثِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہیں، رشتہ داروں کو صدقہ دینے میں دوہرا اجر ہے، صلہ رحمی بھی اور صدقہ بھی۔ اس زاویہ سے قربانی کودیکھا جائے تو سائل کو جو شبہ ہورہا ہے وہ پیدا نہیں ہوگا۔

بہرحال یہ تفصیل تو اس اعتبار سے ہے کہ قربانی میں صدقہ کا پہلو بھی ملحوظ رکھا جائے، ورنہ قربانی کی حقیقت اور بنیادی فلسفہ صرف صدقہ نہیں ہے، قربانی میں صدقہ کی حیثیت ثانوی ہے، اس لیے قربانی کے ایام میں نقد رقم یا کسی اور جنس کی صورت میں صدقہ دینے سے قربانی کا وجوب ادا نہیں ہوتا، بلکہ قربانی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے، اور اللہ تعالیٰ کو خون اور گوشت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس قربانی میں پوشیدہ اخلاص اور تقویٰ اللہ رب العزت کے حضور پیش ہوتاہے۔ قربانی کا فلسفہ مختصراً یوں بیان کیا جاسکتاہے:

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی  قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جان دار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف صدقہ کرنے اور غریب کی مدد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ غریب و محتاج کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اور صدقہ فطر کی عبادات مقرر کی ہیں، نیز اس کے لیے نفلی صدقات کا دروازہ بھی ہر وقت کھلا ہے۔ لہٰذا جس شخص پر قربانی واجب ہو اس کے لیے ایامِ عید الاضحیٰ میں قربانی ہی کی عبادت متعین ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143411200012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں