بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضاء نماز کی آخری دو رکعتوں میں قراٴت کا حکم


سوال

میں نے ایک مفتی صاحب سے یہ سنا ہے کہ ایک شخص اگر اپنی قضاء نماز لوٹاتا ہے تو اسے تیسری اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے ساتھ کوئی اورسورت نہیں پڑھنی چاہیے اور اگر قضاء نامعلوم ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت ملا کر پڑھے جیسے سنتوں کی چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ لفظ معلوم شدہ اور غیرمعلوم شدہ قضاء سے ان کی مراد کیا ہے ؟شاید کہ لفظ معلوم سے مراد وہ نمازہو جس کی تاریخ اور وقت اسے معلوم ہو؟برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

سوالنامہ میں مفتی صاحب موصوف کی مراد پوری طرح واضح نہیں ہے،ممکن ہے سننے اور سمجھنے سے لے کر لکھنے تک الفاظ میں کمی بیشی ہوئی ہواس لیے موصوف کے بیان کی مراد اور وضاحت خود انہی سے معلوم کرلی جائے تو زیادہ مناسب ہےالبتہ مسئلے کے سیاق سے ہم جو فقہی مسئلہ سمجھے ہیں کہ اگر ایک شخص کو شک ہوکہ اس پر قضاء نماز ہے یا نہیں اوروہ قضاء نماز پڑھنا چاہتاہےتو وہ چاروں رکعتوں میں قراٴت کرے کیونکہ اگر حقیقت میں اس پر قضاء ہو تو آخری دو رکعتوں میں قراٴ ت کرنے سے نماز میں فساد نہیں آتا اور اگر حقیقت میں اس پر قضاء نماز نہ ہو تو اس کی نماز نفل ہو جائے گی اور نفل میں چاروں رکعتوں میں قراٴت ضروری ہوتی ہے۔ ممکن ہے سوال میں بھی یہی مراد ہے۔


فتوی نمبر : 143101200047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں