بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پراویڈنٹ فنڈ کے بارے میں ایک شبہ


سوال

سرکاری محکموں میں جی پی فنڈ، پراویڈنٹ فنڈ یا ڈی ایس او پی فنڈ، تینوں کا ایک ہی مفہوم ہے، کے نام سے ملازم کی تنخواہ سے کچھ رقم وضع کر کے ملازم کی بچت کی خاطر جمع کیا جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسی رقم کے ساتھ کچھ مزید رقم کا اضافہ کر کے یکمشت ملازم کو دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں چند امور کی نشان دہی ضروری سمجھتا ہوں؛ تاکہ ذہنی تشویش دور ہو:

1 روپے کی قدر وقت کے ساتھ گھٹتی بڑھتی ہے جو معاشیات کا ایک مسلمہ حقیقت ہے؛  لہذا آج کے پچاس روپے کی قیمت وہ نہیں ہے جو آج  سے دس پندرہ برس پہلے تھی۔ پس اگر ایک ادارہ اپنے ملازم کو بیس پچیس برس پہلے کے پچاس روپے رائج الوقت پچاس روپے کے برابر کر کے دے رہا ہے جس میں محکمے کو بھی کسی نا کسی شکل میں فائدہ ہو رہا ہے۔ یوں سمجھیے کہ ملازم کی تنخواہ میں سے کچھ رقم منہا کر کے کسی کاروباری سکیم میں لگا دیتے ہیں، اور اس سے حاصل شدہ کمائی سے ملازم کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد خاص شرح کے مطابق حصہ ملتا ہے۔ قواعد فقہیہ کی رو سے یہ سود نہیں ہونا چاہیے،  جیسا کہ بعض فقہا کی رائے سے یہی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ سود  دو آدمیوں کے مابین عقد ہوتا ہے جب کہ دونوں طرف مال ہو اور مال پر ملک ثابت ہو،  یہاں جو رقم کٹتی ہے وہ ملازم کی ملک نہیں ہوتی،  یہ رقم ابھی تک مالک کے قبضے میں آئی نہیں ہے۔

2 بعض علما نے اس معاملے میں اختیاری اور غیر اختیاری کا فرق لکھا ہے یعنی اختیار و مرضی سے یہ کٹوتی جائز نہیں یہ سود ہے اور غیر اختیاری ہو تو یہ جائز ہے سود نہیں ہے۔ حالانکہ ملازم اس میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے کہ یکمشت اسے ایک خطیر رقم ملنے والی ہے، تب ہی تو حکومت کی طرف سے متعینہ کٹوتی سے زیادہ کٹوانے پر راضی ہے۔ یہ اختیاری و غیر اختیاری کا فرق کر کے ایک کو جائز اور دوسرے کو نا جائز قرار دینا سمجھ میں نہیں آرہا۔

جواب

1،2 مفتی شفیع صاحب کی درج ذیل تحریر آپ کے دونوں سوالوں کے جواب کے لیے کافی ہے، وہ لکھتے ہیں:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم ماہ بماہ کاٹی جاتی ہے اور اس پر ہر ماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے پھر مجموہ پر جو رقم سالانہ بنام سود جمع کرتا ہے، شرعا ان تینوں رقموں کا حکم ایک ہے، اور وہ یہ کہ یہ سب رقمیں در حقیقت تنخواہ ہی کا حصہ ہیں، اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائیں، لہٰذا ملازم کو ان کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، ان میں سے کوئی رقم بھی شرعًا سود نہیں، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں اگر اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اسپر جو رقم محکمہ بنام سود دے گا، اس سے اجتناب کیا جائے، کیوں کہ اس میں تشبہ بالربا بھی ہے اور سود خوری کاذریعہ بنالینے کا خطرہ بھی، اس لیے خواہ وصول ہی نہ کریں یا وصول کر کے صدقہ کر دیں ۔"

مذکورہ بالا عبارت میں حضرت مفتی صاحب نے ادارے کی طرف سے ملنے والی رقم کو صریح سود نہیں کہا ہے، بلکہ اس میں سود کا شبہ بیان کیا ہے اور لوگ اسے سود خوری کا ذریعہ نہ بنادیں تو سد باب کے طور پر اس سے بچنے کا حکم دیا ہے، اور  ربا کے باب میں حدیث شریف میں جہاں سود سے اجتناب کا حکم ہے، وہیں شبہ سود سے بھی اجتناب کا حکم ہے۔سود کا شبہ اس وجہ سے ہے کہ جب ملازم کے اختیار سے محکمہ کٹوتی کرتا ہےتو وکالت کا پہلو درمیان میں آجاتا ہے گویا ملازم اپنے ادارے سے کہتا ہے کہ میری رقم وضع کرکے اس پر سود لگادو ۔اس وکالت کے پہلو سے ملازم کا اختیار بھی ثابت ہوگیا اور وکیل کا قبضہ چوں کہ موکل کا قبضہ ہوتا ہے اس لیے قبضہ بھی متحقق ہوگیا اور آپ کا وہ اشکال بھی رفع ہوگیا ہے کہ جب رقم ملازم کے قبضہ میں نہیں آئی تو ملکیت میں نہیں آئی اور ملکیت نہ آئی تو ملک کا دوسری ملک کے ساتھ تبادلہ بھی نہ ہوا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143601200018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں