بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرائزبانڈ کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ کیا پرائز بانڈ سے حاصل شدہ رقم انعام قابل استعمال جائز ہے یا نہیں۔ میں نے کچھ ویب سائٹس پر پڑھا ہے، کہیں جائز کہا گیا ہے تو کہیں ناجائز بھی۔ گو کہ میرے مکتبہ فکر سے تو ناجائز ہی کہا گیا ہے۔ لہٰذا میں آپ سے اس چیز کی تصدیق چاہتا ہوں جو میرے لیے اطمینان کا باعث ہوگا اور وہ حضرات جو میرے اقارب میں ہیں اور میری اس بات پر یقین نہیں کررہے، انہیں دکھانا یا بتانا چاہتا ہوں۔ لہٰذا اگر اس حوالے سے کوئی فتویٰ جاری کیا گیا ہو تو اس کی کاپی ارسال کر دی جائے تو عنایت ہوگی۔ اگر کوئی ایک بھی شخص اس کو مان کر اس سود جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لے تو آپ کے اور میرے لیے صدقہ جاریہ ہوگا۔ اللہ پاک مجھ سمیت سب کو ہدایت دے۔

جواب

پرائزبانڈ لینے والے ہرشخص کا مقصد یہ ہوتاہے کہ جتنی رقم صرف کرکے وہ پرائزبانڈ خریدرہاہے اس سے زائد رقم اسے حاصل ہوجائے، بصورت دیگر اسے اصل رقم مل جائے، اصل رقم بہرصورت محفوظ رہتی ہے، اس لیے اصل رقم جو پرائزبانڈ کی خریداری کی صورت میں خریدار نے حکومت کودی ہے اس کی حیثیت قرض کی ہے، قرض دے کر اس پراضافہ لیناسود ہے، خواہ قرض کی اصل رقم پراضافے کا ملنا یقینی ہویااحتمالی۔ اس اعتبارسے پرائز بانڈ کی لین دین جائزنہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں سود ہے۔ دوسری حیثیت پرائزبانڈ کی یہ ہے کہ: بہت سے لوگ مخصوص رقم دے کر پرائزبانڈ کی دستاویزحاصل کرتے ہیں، ہرشخص کی نیت یہی ہوتی ہے کہ قرعہ اندازی میں میرانام نکلے اور انعامی رقم مجھے ملے۔ ایک سے زائد افراد کا کسی مالیاتی اسکیم میں رقم لگانااس طورپرکہ کسی ایک کو یا چند ایک کو اضافی رقم ملے گی بقیہ افراد اضافی رقم سے محروم رہیں گے یہ جوے کی ایک صورت ہے؛ کیوں کہ اس میں اضافی رقم کا حصول احتمالی ہے جوکسی ایک شخص یا بعض افراد کے لیے ہوگا اورباقی محروم رہیں گے اور یہ جوا ہے۔ اس حیثیت سے بھی پرائزبانڈ کالین دین ناجائزہے۔ لہٰذا پرائزبانڈ سے حاصل ہونے والی انعامی رقم ناجائزہے، بنابریں کسی نے لاعلمی میں خرید لیے ہوں تو اس کے لیے اصل رقم لینا جائزہوگا،انعامی رقم کا استعمال جائزنہیں ہوگا، بلکہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب پرصدقہ کرنالازم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143602200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں