بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

(NRSP, Micro Finance Bank (Islamic Division) سے قرضہ لینا


سوال

 میرا تعلق مردان سے ہے، اور مردان شہر میں میر ی موٹرسائیکل ڈیکوریشن اور سپئرپارٹس کی  دُکان ہے۔ مردان شہرمیں (NRSP, Micro Finance Bank (Islamic Division) کے نام سے ایک بینک قائم ہوا ہے جو کہ دکان دار حضرات کو قرضہ دیتے ہیں اور دعوٰی کرتے ہیں یہ بلا سود  لین دین ہے جب کہ قرضے کا طریقہ کار درج ذیل ہے:

بینک دُکان دار کو نقد رقم کی بجائے دکان دار کے لیے سامان خریدتا ہے ایک لاکھ سے تین چارلاکھ کی مالیت تک اور پھر ایک لاکھ پر 16000 سولہ ہزار منافع وصول کرے گا اور یہ ماہانہ اقساط کی صورت میں ہوگا اور یہ اقساط ایک سال کےعرصہ پر محیط ہوں گی، یعنی 12 ماہ میں منافع سمیت (ایک لاکھ کے ساتھ 16 ہزار روپے) یہ قرضہ واپس کرنا ہوگا۔ اقساط کی ماہانہ رقم کل رقم کی مقدار پر منحصر ہوگی، یعنی کُل رقم + منافع (ایک لاکھ +16000) تقسیم 12 فرض کریں بینک نے میرے لیے 5 لاکھ کی خریداری کی تو 5x16000+500000=580000 مجھے ایک سال میں 580000 روپے واپس کرنے ہوں گے جس کی ماہانہ قسط 48333 روپے بنتی ہے۔ اور فرض کریں اگر میں قرض لینے کے لیے درخواست دُوں اور جانچ پڑتال کے بعد قرضہ کی رقم منظور ہوکر مجھے نقد رقم دیں کہ سامان اپنے لیے خود خرید لینا اور باقی طریقہ کار اوپر والا ہو تو یہ جائز و حلال ہے؟

جواب

اس عقدمیں کئی خرابیاں جمع ہیں،شرعاً اس طرح کا معاملہ جائز نہیں ہے، یہ سودی قرض ہی ہے، اور یہ طریقہ مروجہ غیر سودی بینکوں والا ہے، اور   مروجہ غیر سودی بینکوں  کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ وہ علماء کرام کی نگرانی میں  شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں،  لیکن ملک کے اکثر جید اور مقتدر علماء کرام  کی رائے یہ ہے کہ  ان  بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات  تقریباً  ایک جیسے ہیں، لہذا ان سے معاملات کرنےسے اجتناب کرنا ضروری ہے۔(تفصیل کے لیے  ” مروجہ اسلامی بینکاری“  نامی کتاب کا مطالعہ کرلینا چاہیے)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں