بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نذر کی رقم کس حساب سے ادا کی جائیگی؟


سوال

السّلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ محترم جناب مفتی صاحب،مجھے ۲ سال قبل کانٹریکٹ کی بنیاد پر گورنمنٹ کی ملازمت ملی تھی تو میں نے اللہ تعالیٰ سے منّت مانی تھی کہ اے اللہ پاک اگر میری یہ ملازمت مستقل ہوگئی تو میں اپنی ۲ تنخواہیں اللہ کی راہ میں دوں گا، الحمدللہ آج میری ملازمت مستقلی کا آفیس آرڈر ملا اور مجھے یاد تھا کہ میں نے اللہ سے منّت مانگی تھی اب آسے پورا کروں اور اللہ پاک سے دعا ہے کہ میں اس وعدہ کو پورا کرسکوں آمین۔،آپ جناب سے یہ معلوم کرنا ہے کہ اس وقت میری تنخوار 32000 34000 تھی اب الحمدللہ میری تنخواہ 37000 ہے۔ کیا میں اَس وقت کے حساب سے دوں یا اب جو میری تخواہ ہے اس حساب سے 2 تنخواہ دوں؟ میں 2 تنخواہیں ایک وقت میں ادا نہیں کرسکتا تو کیا میں تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کرسکتا ہوں؟ یہ رقم کس کو دوں اور کس طرح سے دوں؟براہ مہربانی جواب مرحمت فرمائیں تاکہ میں اللہ پاک سے کیئے ہوئے وعدہ کو جلد از جلد ادا کر سکوں۔دعا گولئیق الرحمٰن

جواب

صورتِ مسولہ سائل جس وقت اپنی نذر پوری کریگا اس وقت جو بھی اس کی تنخواہ ھوگی اس کے حساب سے ادائیگی کریگا، خواہ اکھٹی ادا کرے یا تھوڑی تھوڑی کرکے،اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں۔ لھذا اس وقت سائل اگر اپنی نذر پوری کرتا ھے تو 37000 کے حساب سے پوری کریگا. رھی یہ بات کہ کس کو دی جائے؟ تو کسی بھی کارِ خیراور کسی بھی رفاہی کام میں یہ رقم لگا سکتے ھیں، البتہ کارخیر کابہترین مصرف دینی مدارس اور اس کے طلباء ھیں کہ اس میں دہرا اجرہے ،ایک اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا دوسرا دین اشاعت میں حصہ دار بننے کا۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143407200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں