بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ اسلامی بینکاری سے متعلق ایک اشکال کا جواب


سوال

میں نے آپ کی ویب سائٹ پراسلامی بینکنگ کے حرام ہونے سے متعلق فتویٰ دیکھا ہے جو کہ کئی علماء سے تصدیق شدہ ہے کہ موجودہ اسلامی بینکنگ جو کہ ہمارے پاکستان میں مروج ہے وہ غلط ہےاوریہ فتویٰ علماء نےمروجہ نظام کے تفصیلی مطالعہ کے بعد دیا اوریہ فتویٰ روزنامہ ڈیلی نیوزکے شمارے 29۔اگست۔2008 میں بھی شائع ہوا۔بہرحال وہ علماء کرام جنہوں نے اسلامی بینکنگ کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے جیسے معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی صاحب وغیرہ جنہوں نے آپ کے فتویٰ کے جواب میں یہ فتویٰ جاری کیااسی طرح دارالعلوم کراچی والوں نے بھی 28اکتوبرکوایک فتویٰ شائع کیاجس میں یہ کہا گیا کہ مذکورہ بالا فتویٰ میں اسلامی بینکاری کے خلاف کوئی ایسا واضح ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے موجودہ بینکاری کے نظام کے بارے میں عدم جواز کا فتویٰ دیا جاسکے اور نہ ہی اس سلسلے میں ان سے رابطہ کیا گیا جو اس بینکاری کے نظام سے وابستہ ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی صفائی کا موقع دیا گیا تاکہ وہ اپنی بات کو سمجھا سکیں ۔کیا آپ کے خیال میں دارالعلوم کراچی ذمہ دار ادارہ نہیں ہے ؟کیا ایسا ممکن ہے کہ اس بینکاری نظام کے خلاف فتویٰ دینے سے پہلے جو میٹنگ آپ حضرات نے کی ہے اس کی کوئی تفصیل فراہم کی جاسکے ؟امید کرتا ہوں کہ آپ حضرات میرے اس سوال کا مثبت جواب عنایت کریں گے ، کیونکہ یہ مسئلہ نہایت نازک اور اہم ہےمیرے لیے بھی اور باقی سب کے لیے بھی۔

جواب

مذکورہ فتویٰ ایک نظام سے متعلق ہےجواپنے موقف کا اظہار ہے جس کے لیے روزانہ متعدد لوگ ہم سے اور ہمارے فتویٰ پر دستخط کرنے والے علماء کرام سے سوال کیا کرتے تھے ۔چنانچہ سائلین کو اپنی رائے بتانے اور اس رائے سے متعلق ابہام کو دور کرنے کے لیے اس رائے کے اظہا روبیان کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس اظہار کی حیثیت فقہی مسئلے پر اپنے موقف کو بیان کرنا ہے ۔ یہ فتویٰ عدالتی فیصلہ یا دعویٰ اورجواب دعویٰ نہیں ہے کہ کسی ادارہ یا فریق کو صفائی کا موقع دینا شرعاً وقانوناً ضروری ہوتا،اگر ایسا کرنا ضروری ہوتا تو پھر جواز کا فتویٰ صادر کرنے والے اہل علم سے بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جائز قرار دیتے ہوئے کسی اور سے رابطہ کیا ہے یا نہیں ؟مگر شرعی فتویٰ کے بیان میں شخصیا ت کا لحاظ رکھنے سے زیادہ امانت و دیانت کا لحاظ ضروی ہوتا ہے اس لیے جس طر ح جوازکافتویٰ دینے والےاپنے موقف کے اظہار میں آزاد تھے کسی کے پابند اور تابع نہیں تھے ،اسی طرح عدم جواز کا فتویٰ دینے والے بھی اپنے موقف کے اظہار میں ان کے پابند اور تابع نہیں تھے اس لیے انہوں نے آزادی کے ساتھ دیانتاًاپنے موقف کو کھلے عام بیان کرنا دینی ذمہ داری سمجھ کر واضح کردیا اس میں کسی عقل مند آدمی کو اشکال نہیں ہونا چاہئے۔ ذکرکردہ ادارہ ہمارے لیے انتہائی قابلِ احترام ہے وہ ہمارا اپنا ادارہ ہے اس ادارے کا تقدس ہمارے لیے اپنےادارےجامعہ علوم اسلامیہ سے ہرگز کم نہیں ۔ اس ادارے کے اکابر ومشائخ ہمارے لیے انتہائی قابل احترام ہیں ہمارا ان سے مذکورہ مسئلہ میں جو اختلاف ہے یہ خالصتاً فقہی اختلاف ہے،ایسا فقہی اختلاف کسی قابل احترام شخصیت کے احترام کے منافی بھی نہیں ۔ مروجہ اسلامی بینکاری کے عدم جواز کا متفقہ فتویٰ جاری ہونے سے پہلے متعدد مجالس ہوئی تھیں ان کی روئیداد یا تفصیل اس طور پر نہیں ہے جوآپ کی خدمت میں ارسال کی جاسکے۔البتہ اگرآپ کو اس مجلس سے متعلق کوئی سوال کرنا ہو تو کسی فرد یا ادارے کا نام لیے بغیر مختصر مختصر سوال کرسکتے ہیں ہم اپنی معلومات اور یادداشت کے مطابق جو ممکن ہوا خدمت گزار کردیں گے ۔انشاء اللہ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں