بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ محافل نعت خوانی کا حکم


سوال

موجودہ دور میں منعقد کی جانے والی محافل اور کانفرنس میں نعت خواں اور مقررین حضرات کو معاوضہ دے کر مدعو کیا جاتا ہے، نعت خوانی کے دوران ناظرین کرنسی نوٹ لٹاتے اور ہاتھوں کو لہراتے ہیں، اوراس کی ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل سے تصویر کشی اور ویڈیو ریکارڈنگ کی جاتی ہیں، منع کرنے پر کہا جاتا ہے کہ ایک نامی گرامی صاحب فتویٰ نے ویڈیو ریکارڈنگ کے جواز کا فتوی دیا ہے۔مذکورہ حالات میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:۱۔ نعت خوانی اور تقریر کا معاوضہ طے کرنے اور لینے دینے کا کیا حکم ہے، نیز اس کو پیشہ بنا لینے کا کیا حکم ہے؟۲۔ نعت خوانی کے دوران کرنسی نوٹ لٹانے اور ہاتھ لہرانے کا کیا حکم ہے؟۳۔ ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل وغیرہ سے تصویر کشی اور ویڈیو ریکارڈنگ کا کیا حکم ہے؟۴۔ مذکورہ نوعیت کی ٕ محافل اور کانفرنس منعقد کرانا اکابرین علماء دیوبند کے طریقے کے مطابق ہے یا خلاف، نیز اس میں شرکت کرنا باعثِ ثواب ہے یا باعثِ وبال؟۵۔مسجد میں نعت خوانی کے دوران ہاتھ لہرانے کرنسی نوٹ لٹانےاورویڈیوریکارڈنگ کرنے کا کیا حکم ہے ؟۶۔جب ہم لوگ شادی بیاہ ودیگر تقریبات کی ویڈیو ریکارڈنگ سے منع کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ مولوی حضرات خودمووی بناتے اورٹی وی پرآتے ہیں ،ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟۷۔اگرکسی مسئلے میں علماء ومفتیان کی اکثریت کسی چیز کے ناجائز ہونےکا فتویٰ دے اور چند علماءومفتیان جواز کافتویٰ دے تو اس صورت میں اکثریت کے فتویٰ پر عمل کرناضروری ہوگا یا دونوں میں سے کسی ایک کے فتویٰ پر بھی عمل کرسکتے ہیں ؟۸۔جس طرھ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا ضروری ہے ، اسی طرح تمام مسائل میں کسی ایک مفتی پر اعتماد کرنا ہوگا یا جس مسئلے میں جس مفتی کی رائے پسند آجائے اس پر بھی عمل کیا جاسکتاہے؟۹۔مذکورہ حالات میں ایک عام مسلمان اور علماء و مفتیان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟

جواب

بلاشبہ اس گئے گذرے دور میں دینی اجتماعات اور مختلف قسم کی ایسی محافل کا انعقاد جس میں حدودِشرع کی رعایت رکھتے ہوئے ترویجِ دین اور اشاعتِ قرآن و سنت کی کوشش ہورہی ہو فی نفسہ ایک خوش آئندہ اور باعث اجروثواب کا م ہے لیکن اگر انہی محافل کو محرمات و منکرات کا مجموعہ بنادیا جائےجیسا کہ آج کل کا عام مشاہدہ ہے تو پھر اگر بالفرض وہ منافع حاصل بھی ہوں جن کے حصول کے لیے ان محافل انعقاد کیا جاتاہے تو بہت سے معاصی کا مجموعہ بن کر محض حاصل ہونے والے ان منافع کی وجہ سے کیا کوئی عاقل اور سلیم الطبع شخص اس مجموعہ منکرات کو جائز نہیں کہہ سکتاورنہ پھر تو دنیا کا کوئی گناہ گناہ نہیں رہ سکتا کیونکہ برے سے برے کام میں بھی کچھ نہ کچھ فوائد تو ہوتے ہیں وگرنہ ان کو اختیار ہی کون کرے اس لیے ایسے پروگراموں کے جزوی نیک مقاصد یا فوائد کے بجائے عمومی مفاسد اور خرابیوں کو بھی ملحوظ رکھنا لازمی ہے کیونکہ ان محافل کے حکم کا مدار ان مفاسد پر ہوگا۔ اس اجمال کے بعد تفصیل سے اپنے سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔ 1۔نعت خواں اور مقررین حضرات کو اگر آمدو رفت کے خرچے اور صرف کردہ وقت کا معاوضہ دیا جائے تو یہ جائز ہو گا مگر ایسی محافل عبادت سے زیادہ رسم کا مظہر ہونے کی وجہ سے قباحت سے خالی نہیں ہوسکتی ۔ 2۔تصویر کشی موبائل سے ہو یا ڈیجیٹل کیمرے سے یا کسی بھی آلے سے ہو بہر صورت ناجائز ہے۔ 3۔ ان قباحتوں اور مفاسد کے ساتھ علماء دیوبند سے کہیں بھی محافل نعت وغیرہ کا انعقاد ثابت نہیں ۔ 4۔سوا ل میں جس نوعیت کی محافل کا ذکر ہے ان میں شرکت کرنا درست نہیں ۔ 5۔ فساق وفجار کا شیوہ ہے ، لایعنی محافل کے بیہودہ لوگوں کا طریقہ کارہے ۔ 6۔ کسی کے غلط فعل سے اپنی غلطی پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ،غلط ٖغلط ہے خواہ اس کا مرتکب کوئی بھی ہو۔ ۷۔قلت و کثرت سے قطع نظر جب کسی مسئلہ میں حلت و حرمت کی دو رائے ہوں تو عدم حرمت والی رائے قابل ترجیح و عمل ہے خواہ کثرت کسی بھی جانب ہو۔ 8۔عامی کے لیے اس طرح کا طرز عمل کے جس کی رائے پسند آجائے اس پر عمل کرے یہ اتباع شریعت نہیں،اتباعِ خواہش نفس ہے ، کسی ایک رائے پر عمل کرے ۔ ۹۔زندگی کے ہر شعبہ میں اتباع ِشریعتِ محمدیہ اور اس کی تبلیغ اس طور پر کہ شریعت کا جو حکم جس شکل میں آئے،اس کو اسی طرح بغیر کسی تحریف وتاویل کے عمل میں لایا جائے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں