بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں اور بیوی کے حقوق میں اعتدال اختیار کرنا۔


سوال

ایک آدمی کو کس طرح ماں اوربیوی کے حقوق میں توازن رکھناچاہئے، اگرماں ماہانہ تعاون کےباوجودبیٹےسےیہ خواہش رکھےکہ وہ اسےاتنامہنگاسوٹ دلائےجتنامہنگااس کی بیوی بھی نہیں بناپاتی،نئےنئےاورمہنگےفیشن کےلیےالگ پیسوں کاتقاضا کرےتوکیااس صورت میں بھی بیٹاان کو '' نہ'' نہیں کرسکتا؟اس صورتحال میں بیٹےکےلیےکیاحکم ہےاوربیوی کیا کرے، کیا اس کی بیوی کی حق تلفی نہیں؟

جواب

بیان کردہ صورتحال سےدوچارہونےوالوں کےلیےپہلاحکم تویہ ہےکہ ساس اوربہوایک دوسرےکےساتھ ضدوعناداورعدم برداشت کابرتاؤچھوڑدیں کیوں کہ آپ کےگھرمیں پائےجانےوالےتناؤکابنیادی سبب یہی معلوم ہوتاہے۔ دوسراحکم یہ ہےکہ بہوکومعلوم ہوناچاہئےکہ ساس شرعاً تمہارےشوہرکی طرح تمہارےلیےبھی ماں کادرجہ رکھتی ہےاس لیےماں کےساتھ مقابلےکے جذبات ترک کردیں توگھرکاماحول صحیح ہوجائےگا۔ نیزماں کوبھی احساس ہوناچاہئےکہ اگروہ اپنے بیٹےکی خیرخواہ ہے اس کا گھربسانا،بنانااورپرسکون دیکھناچاہتی ہےتواپنےمطالبات میں کمی کرے۔ کیاماں صرف بہوکی ضدمیںیہ برداشت کرسکتی ہےکہ اس کابیٹامقروض ہولوگ اس کےبیٹےکاجیناحرام کردیں۔ اگرماں ہے تووہ یہ سوچتےہوئےاپنے اضافی مطالبات سے دستبردارہوکردنیاسےزیادہ آخرت کی زیبائش وآرائش کااہتمام شروع کردےاگرساس کےجذبات میں کمی نہ آئےتوپھربہوکودوراندیشی کا مظاہرہ کرناچاہئےاوریہ سوچناچاہئےکہ کل کووہ ساس ہوگی اوراپنی بہوسے کیاچاہےگی وہی رویہ اپنی ساس کےساتھ رکھناشروع کردے۔ مردکےلیے حکم یہ ہےکہ وہ بیوی کواسراف سے بچنے کا حکم سکھائےکیوں کہ وہ اس کی ماتحت ہےاوروالدہ کے مطالبات پرادب کے ساتھ اسراف کا حکم بتائےاورایسانہ کرسکےتوحسب استطاعت کرنابھی بیوی کےخدشات کےسامنےسرنگوں ہوناچھوڑدے۔ جب معاملہ استطاعت سےباہرہونےلگے توماں کے احترام کاپاس رکھتےہوئےمناسب اندازسے انکارکرنایامعذرت کرلینایاپھراگلےوقت کےلیے ٹال دینا شرعاً جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں