بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لعان کے متعلق ایک حدیث اور چند سوالات


سوال

کیا میاں بیوی کے درمیان لعان کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ؟ اور کیا لعان کے بعد کوئی طلاق دیئے بغیرعورت دوسرے مرد کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے؟ یا پھر لعان کے بعد نکاح کو توڑنا یا فسخ کرنا ضروری ہے جو کہ اکھٹی تین طلاق دینے سے بغیر معصیت کے بھی ہو جائے گا؟ یا لعان کے بعد اکھٹی تین طلاق ہی دینا بے؟ اس کا کوئی فائدہ تو نہیں؟:یہ سوال صحیح بخاری جلد۲ ص۷۹۱ کی حدیث عجلانیؓ کے متعلق ہے، جو درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنِ الْمُلاَعَنَةِ وَعَنِ السُّنَّةِ فِيهَا عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ أَنَّ رَجُلاً، مِنَ الأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً، أَيَقْتُلُهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي شَأْنِهِ مَا ذَكَرَ فِي الْقُرْآنِ مِنْ أَمْرِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : "قَدْ قَضَى اللَّهُ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ "، قَالَ فَتَلاَعَنَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ، فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا. فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ فَرَغَا مِنَ التَّلاَعُنِ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ : " ذَاكَ تَفْرِيقٌ بَيْنَ كُلِّ مُتَلاَعِنَيْنِ ". قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتِ السُّنَّةُ بَعْدَهُمَا أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ، وَكَانَتْ حَامِلاً، وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى لأُمِّهِ، قَالَ ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي مِيرَاثِهَا أَنَّهَا تَرِثُهُ وَيَرِثُ مِنْهَا مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ. قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: " إِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلاَ أُرَاهَا إِلاَّ قَدْ صَدَقَتْ وَكَذَبَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ، فَلاَ أُرَاهُ إِلاَّ قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا "، فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى الْمَكْرُوهِ مِنْ ذَلِكَ.

جواب

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درجِ ذیل ہیں:علمائے احناف کے نزدیک محض لعان سے نکاح نہیں ٹوٹتا، بلکہ شوہر کی طلاق یا قاضی کی تفریق سے ہی فرقت واقع ہوتی ہے۔نکاح کے بعد جب تک شوہر طلاق نہ دے یا قاضی تفریق نہ کردے ، عورت دوسرے مرد کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔لعان کے بعد طلاق دینا یا فسخ کرنا شرعا ضروری تو نہیں، لیکن عام طور پر اس کے بعد نبھاؤ مشکل ہوتا ہے، اس لئے یہی طریقہ رہا ہے کہ شوہر طلاق دے دیتا ہے یا قاضی تفریق کرا دیتا ہے۔ حدیثِ مذکور میں " فَكَانَتِ السُّنَّةُ بَعْدَهُمَا أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ" کا یہی مطلب ہے۔چونکہ محض لعان سے نکاح ٹوٹتا نہیں ہے، اس لئے باہمی جدائی مقصود ہو تو اس کے بعد طلاق کی ضرورت پڑتی ہے، لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ لعان کے بعد طلاق کا کوئی فائدہ نہیں، مذکورہ حدیث میں بھی لعان کے بعد حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ کے طلاق دینے کا ذکر اسی بنا پر ہے۔البتہ بہتر صورت یہ ہے کہ لعان کے بعد شوہرصرف ایک طلاق دے دے، جس سے عورت جدا ہوجائے گی اور مقصود بھی حاصل ہو جائے گا۔


فتوی نمبر : 143509200047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں