بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کنفیوشس نبی تھا؟


سوال

کیا فرماتے ہیں علمأ کرام ومفتیان عظام عقیدہٴ نبوت ورسالت سے متعلق کہ: کیا کسی غیر پیغمبر کو اس کی اخلاقی تعلیم وتربیت کے اعتبار سے نبی یا رسول کہہ سکتے ہیں؟مثلاً چینی مذہب کی تاریخ میں ایک شخص ہوگزرے ہیں جن کا اصل نام کنگ چیو King Chioتھا جو کنفیوشس کے نام سے مشہور تھا۔ جو اندازاً ۵۵ قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ محکمہ مال اور پولیس میں ملازم رہاlsquo وزیر عدالت بھی رہاlsquo شادی کی اور بیوی کو طلاق دیlsquo شاعری اور موسیقی سے شد وشغف تھاlsquo اپنے رسوم ورواج کا سخت پابند تھاlsquo والدہ کی وفات پر ۲۷ برس تک مسلسل سوگ منایاlsquo وغیرہ وغیرہ۔ کنفیوشس سے متعلق یہ تمام معلومات غیر مستند اور تاریخی ہیں۔اب معلوم یہ کرناہے کہ: ۱:۔ کیا فقط کوئی بھی شخص اچھے اخلاق کی بنا پر پیغمبر ہوسکتاہے؟ ۲:۔ کیا شاعری اور موسیقی پیغمبر انہ صفات سے متصادم نہیں؟ ۳: ۔کیا گو تم بدھlsquo زرتشت اور کنفیوشس کو نبی یا رسول کہا جاسکتا ہے؟ ۴: ۔کیا حضرت محمد ا کی تعلیمات اور کنفیوشس کی تعلیمات کا موازنہ کرنا درست ہے؟ ۵: ۔کیا اس قسم کے من گھڑت یا ظنیات پر مبنی عقیدے سے انسان توہینِ رسالت کا مرتکب نہیں ہوتا؟ ۶: ۔ایسے شخص کی شریعت میں کیا سزا مقرر ہے جو کسی عام انسان کو نبی یا رسول ثابت کرنے کی کوشش کرکے مراعات حاصل کرے؟ آپ حضرات سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ آیا اس عنوان کنفیوشس اور رسول اکرم ا کی سیرت اور تعلیمات وافکار کا تقابلی جائزہ پر تحقیق اور ثابت کرنا کہ واقعی کنفیوشس نبی تھاlsquo کس حد تک درست ہے۔ کیونکہ بعض بزعم خویش و بشمول خود روشن خیال ودانشور صرف اور صرف چند ٹکوں کے لئے صحیح عقیدہٴ نبوت کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ قرآن وسنت اور قانونِ شرعیہ کی روشنی میں اس اہم مسئلہ میں میری راہنمائی فرمایئے۔

جواب

اچھے اخلاق پیغمبرانہ تعلیمات کا نتیجہlsquo اثر اور حصہ ہوتے ہیںlsquo اللہ تعالیٰ کے فرستادہ نبیوں میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جس کی تعلیماتlsquo اعلیٰ انسانی اقدار اور مثالی اخلاق پر مبنی نہ ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ پیغامlsquo فطرت ِ انسانی کا محافظ اور نگہبان ہوتاہےlsquo اگر کوئی انسان فطری وطبعی طور پر اعلیٰ اخلاق کا حامل ہو تو اسے انسانی فطرت کا مونس اور سلیم الطبع انسان تو یقینا تسلیم کیا جاسکتاہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں سمجھا جاسکتا کہ ان اچھے او صاف کے حامل افراد کو پیغمبری کے مرتبہ پر فائز کیا جائے، جیسے عیسوی دور نبوت اور آخری شریعت کے درمیانی عرصہ میں عیسوی تعلیمات انسانوں سے اوجھل ہوچکی تھیں، اس کے باوجود بنی اسرائیل کے علاوہ بنو اسماعیل میں اعلیٰ انسانی اقدار کی حامل شخصیات موجود تھیں، مثال کے طور پر آنحضرت ا کے سلسلہٴ نسب میں تقریباً سب ہی ایسی برگزیدہ ہستیاں گزری ہیں جن کے کریمانہ اخلاق کے اپنے اور پرائے سب معترف تھے، لیکن انہیں ان اوصاف کے باوجود کسی نے نبی نہیں قرار دیا، بلکہ ان کے علمی معیار کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ یہود ونصاریٰ اپنی تعلیمات کے محرف شدہ ہونے کے باوجوعرب قوم بنو اسماعیل کے مقابلہ میں تعلیم یافتہ شمار ہوتے تھےlsquo۔ذرا غور فرمایئے کہ اخلاق حسنہ اپنی حقیقت میں مکمل ہونے کے باوجود اپنے حامل کو تعلیم یافتہ نہیں کہلاسکتے تو نبوت وپیغمبری کے مقامِ رفیع کے لئے زینہ کیونکر بن سکتے ہیں؟ ۲- شاعری اور موسیقی قطعاً پیغمبرانہ صفات کے منافی ہیںlsquo امام الانبیأ حضرت محمد ا کے بارے میں قرآن کریم کا واضح اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ انہیں شعر سکھائے اور نہ ہی شعر گوئی آپ کے لئے مناسب ہےlsquo قولہ تعالیٰ: وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ․․․ الآیة یٰسینٓ:۶۹ ۳- گوتم بدھlsquo زرتشت اور کنفیوشس وغیرہ کو نبی یا رسول نہیں کہا جاسکتا:اس کی وجوہات اور دلائل مندرجہ ذیل ہیں: الف- اس لئے کہ کسی بھی شرعی یا مستند تاریخی روایت میں ان کے پیغمبر یا نبی ہونے کی صراحت موجود نہیں ہے ،حالانکہ متداول مذہب اور نظریہ ہونے کے ناطے یہ ضروری تھا کہ یہود ونصاریٰ وغیرہما کی طرح ان کے بارے میں کوئی تصریح ہوتی۔ ب- قرآن وحدیث میں جتنے پیغمبروں یا ان کی تعلیمات کا ذکر آیاہے ان سے بنیادی طور پر چند اصول ِ دین مستفاد ہوتے ہیں یعنی ایسے معتقدات جو تمام آسمانی شریعت اور ہر نبی کی تعلیم میں متفقہ طور پر پائے جاتے رہے ہیںlsquo ان معتقدات میں توحیدlsquo رسالتlsquo بعث بعد الموت اور قیامت سرفہرست ہیں۔ توحید: کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ بندگی اور عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگیlsquo اس کی عبادت اور اس کے اختیارات میں کسی اور کو شریک وساجھی نہیں ٹھہرایاجائے گا۔ رسالت: کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کی عام مخلوق کے درمیان رابطہ اور واسطہ کا ایک مرتبہ و مقام ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی باکمال شخصیات کو فائز کرتاہے جو ہرقسم کے جسمانیlsquo روحانی اور اخلاقی عیوب سے طبعی اور خلقی طور پر پاک ہوتی ہیں، مخلوقِ خدا کی رشد وہدایت کے علاوہ ان کی ذمہ داری یہ بھی ہوتی تھی کہ وہ سابقہ جماعت انبیأ کی تصدیق اور تائید کرنے والے ہوتے تھے، مثلاً روئے زمین میں تادیر متداول ہونے والے ادیان میں سے یہود ونصاریٰ کی اپنے وقت کی اصل تعلیمات اور دین اسلام کا باہمی علاقہ واضح مثال ہے یعنی یہود ونصاریٰ کی اصل کتابوں میں ہمارے نبی ا کی بعثت کی پیشن گوئی موجود تھیlsquo خود قرآن کریم نے اس کی صراحت بھی فرمائی ہےlsquo اسی طرح دین اسلام اورہمارے نبی حضرت محمدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت ورسالت کی تصدیق وتائید فرمائی۔ بعث بعد الموت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد قبر کے راستہ سے انسان ایک دوسرے جہاں میں داخل ہوجاتاہے جسے برزخی زند گی سے تعبیر کیا جاتاہےlsquo وہاں بھی انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جاتاہےlsquo بالآخر برزخ کا یہ عرصہ بھی ختم ہوگا اور پوری انسانیت کو ان کے مدافن ومقابر سے اٹھایا جائے گا اور پھران کے دنیاوی اعمال کاحساب وکتاب ہوگا اور انسانیت دو حصوں میں تقسیم ہوگیlsquo ایک حصہ دوزخ میں اور دوسرا حصہ بہشت میں جائے گاlsquo دوزخ اور بہشت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہےlsquo وہاں فنا کو بھی فنا ہوجائے گی انہی مراحل پر بعث بعد الموت اور قیامت کا اطلاق ہوتاہےlsquo اگر اس پیغمبرانہ اصول اور مزاج کو دیکھا جائے تو گوتم بدھ ،زر تشت اور کنفیوشس کو نبی یا رسول کہنا ناممکن معلوم ہوتاہےlsquo کیونکہ ان میں سے ہرایک تاریخی روایات کے مطابق تقریباً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ادوارمیں گزرے ہیںlsquo لیکن تورات اور انجیل اسی طرح خود قرآن کریم ان کے تذکرہ سے خاموش ہےlsquo اس کے علاوہ اور کوئی استنادی واسطہ بھی نہیں ہے جس سے ان کا نبی یا رسول ہونا معلوم ہوسکےlsquo بلکہ ان میں سے بعض کی تعلیمات انبیأ کرام علیہم السلام کی تعلیمات سے مشابہ تو کیا بالکل متصادم نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر کنفیوشس کے خدائی تصور میں ہندومت والا تعدد پایا جاتاہے اور آباء واجداد کی روحوں کی عبادت اس مذہب کی اساسیات میں شامل ہے۔ ہاں جہاں ان کا تذکرہ ملتاہےlsquo اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ عام انسانوں سے مختلف فکر وعمل کے حامل تھے، ان کی تعلیمات بنیادی طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر بھی مشتمل تھیں، انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اخلاقی گراوٹ، معاشرتی بگاڑ اور خواہشات میں مبنی مصائب سے نجات دلانے کے لئے اپنے آپ کو نجات دہندہ ظاہر کیا اور قوم کی فلاح وکامیابی کے لئے اپنے خیال کے مطابق حکیمانہ فلسفہ پیش کیاتھا، یہ فلسفہ بنیادی طور پر چونکہ اچھائیوں کی تلقین، برائیوں سے دوری، تقشف ،عفو ومحبت اور ریاضت ِنفس پر مبنی تھا اور سارے خصائل فطری طور پر قابلِ عمل اور لائقِ ستائش ہیں، اس لئے ان لوگوں کے فلسفوں کو کلی طور پر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ تسلیم کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اپنے وقت میںlsquo اپنی قوم کے حکیم وفلسفی تھے ،بلکہ یوں کہنا ہی قرینِ احتیاط ہوگا کہ ان کا مرتبہ مصلح قوم، حکیم وفلسفی کی حد تک مسلم ہے، جیساکہ حضرت لقمان حکیم جن کا قرآن ِکریم میں تذکرہ موجود ہے، وہ بھی فطری اصولوں پر مبنی فلسفہ وحکمت کے حامل تھے، بعض لوگوں نے ان کے نبی ہونے کی رائے دی ہے، مگر معتمد نصوص سے تائید نہ ملنے کی بنا پر احتیاط پر مبنی قول یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ضرور تھے، ان کی تعلیمات ، نصائح اورمواعظ درست بھی تھے، مگر ان صفات کی بنا پر انہیں نبی نہیں کہیں گے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے فلسفہ کے درست ہونے سے اس کا نبی یا رسول ہونا لازم نہیں آتا اس لئے گوتم بدھ زرتشت اور کنفیوشس کی تعلیمات کے اچھے پہلوؤں سے ان کی نبوت ورسالت ثابت کرنا صحیح نہیں ۔ پھر خصوصاً موجودہ دور میں تو اس گروہ کے پاس ان کے اصل فلسفے اور اصل تعلیمات کا وجود ہی باقی نہیں رہاlsquo بلکہ ان لوگوں کی وفات کے متصل ہی ان کی تعلیمات سے روگردانی اور حذف ومسخ کا سلسلہ شروع ہوچکاتھا، چنانچہ اس وقت بلامبالغہ بدھ مت عیسائیت کے باطل نظریات کی حامل ہےlsquo زرتشت مجوسیت کی علمبردار اور کنفیوشسیت تقریباً پوری طرح ہندوازم کی تصویر پیش کررہی ہے اور ساتھ ساتھ سورج، چاند، ستاروں، بادلوں اور پہاڑوں وغیرہ کا الگ الگ خدا ماننے کے قائل ہیں اور اپنے ہراہم مقام پر مخصوص ذمہ داری کے لئے علیحدہ علیحدہ خدا نصب کرنے کے قائل ہیں۔۱ ۴- حضرت محمد ا کی تعلیمات اور کنفیوشس کی تعلیمات کے درمیان موازنہ کرنا تین بنیادی وجوہ سے باطل ہے: ۱:- یہ کہ حضور ا کی تعلیمات اور آپ کا نبی ہونا پوری انسانیت میں ایک حقیقت اور معروف ومسلم ہے lsquoگو کچھ لوگ آپ کی تعلیمات مانتے ہیں اور کچھ اعراض کرتے ہیں، لیکن آپ ا کے نبی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں کرتا، جبکہ کنفیوشس کا معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ صرف ایک طبقہ محض وہم وظن کے درجہ میں ان کی نبوت کا اعتقاد رکھتاہے، اگر یوں کہا جائے تو یہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ ان کے لئے نبوت کی اصطلاح کا استعمال تقابل ادیان ومقارنة الادیان کے سلسلے کے قیام کے بعد شروع ہوا ہے، ورنہ ان کے پیرو کار تو اس اصطلاح سے بھی بے بہرہ تھے ۔الغرض نبی اور غیر نبی میں موازنہ محال ہے۔ ۲:- یہ کہ حضور ا کی تعلیمات کا وحی الٰہی سے ہونا حتمی طور پر ثابت ہےlsquo آپ ا کا ایک ایک قول وفعل وحی الٰہی کی روشنی میں صادر ہوا ہےlsquo اس کے برعکس کنفیوشس کی تعلیمات کے بارے میں وحی یا الہام ہونے کا مؤقف اختیار کرنے کی کوئی اصل نہیں ملتیlsquo بلکہ حقیقت واصلیت کے شفاف آئینہ میں صرف یہ دکھائی دیتاہے کہ ان کی تعلیمات خود تخلیقی فلسفہ پر مبنی ہیں اور وہ فلسفہ اپنی بعض بنیادوں کی رو سے فطری صولوں سے ہم آہنگ بھی تھاlsquo مگر ان کاوحی یا الہامِ الٰہی ہونا موہوم ومشکوک ہے۔ ۳:- تیسری اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات باقاعدہ سلسلہ سند سے ثابت ہیںlsquo آپ صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک قولlsquo ارشاد اور ہدایت کو باوثوق ذرائع سے نقل کرانے کا جو اہتمام ہواہے یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ ہےlsquo آپ کے ایک ایک قول وعمل کو کئی کئی صحابہ نے نقل کیا پھر صحابہ کرام  کے بعد تابعین وتبع تابعین نے جماعت درجماعت نقل کیاlsquo اگر کہیں پر کسی راوی سے طبعی وبشری طور پر کوئی چوک ہوئی تو اس کی نشاندہی اور وضاحت بھی لازمی طور پر فرمائی گئی جو جرح وتعدیل کے نام سے مستقل فن کی حیثیت سے ہمارے ہاں معروف ومتداول ہے۔ آج اگر حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کسی قول وعمل کے بارے میں جانچ پرکھ کی حاجت محسوس ہوتی ہے تو بآسانی درایتی وروایتی معیار پر پڑتال کرکے حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب قول وفعل کی حقیقت معلوم کرلی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف کنفیوشس کی تعلیمات کا کوئی سلسلہ ٴسند ہے ہی نہیںlsquo چہ جائیکہ معتبر ہوlsquo کوئی بھی دیانتدار طبقہlsquo منصف مزاج حلقہ ان کی تعلیمات کے مستند ہونے کا دعویدار نہیں ہوسکتاlsquo بلکہ وہ یہ اعتراف بھی کرے گا کہ کنفیوشس کنگ چیو کی تعلیمات محض ظنیات اور توہمات پر مبنی ہیںlsquo ان کی کوئی سند نہیں ہے۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ ایک مستند اور غیر مستند کے درمیان موازنہ بالکل سیاہ وسفید کے درمیان موازنہ کی مانند نہیں تو اور کیاہے ؟ ۵- اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ کائنات میں انبیأ کرام علیہم السلام کی جماعت سب سے افضل وبرتر ہے پھر انبیأ کرام علیہم السلام میں امام الانبیأ والمرسلین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سب سے افضل ہیںlsquo یعنی حق تعالیٰ شانہ کے بعد مخلوق میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم افضل ہیںlsquo کسی بھی نبی مرسل کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم پلہ قرار نہیں دیا گیا۔ اسی طرح کسی نبی کی تعلیمات کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرح نہیں کہا گیا تو کیا مجال ہے کہ کسی موہوم فلسفہ کے حامل فرد یا اس کے فلسفہ کو حضورصلی الله علیہ وسلم یا ان کی تعلیمات کے ہم پلہ ہونے کا عقیدہ رکھا جائے، یہ عقیدہ، عقیدہٴ رسالت کے منافی ہے اور عقیدہٴ رسالت سے انحراف جہاں ایمان کے منافی ہے ،وہاں منصبِ رسالت کی توہین بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی غیر نبی کو نبی کہنا lsquo ماننا اور باور کرانا گویا اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی اور افترأ بازی ہےlsquo کیونکہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے نبی نہیں بنایا اور ہم یہ عقیدہٴ رکھتے ہیں یا لوگوں میں تشہیر کرتے ہیں کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کا نبی ہے تویہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہواlsquo ایسے افراد قرآن کریم کی رو سے عام ظالموں سے بڑھ کر ظالم ہیں قولہ تعالی: ومن اظلم ممن افتری علی اللّٰہ کذبا ۔ یونس:۱۷ یعنی اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھے۔ ۶- جو شخص عام انسان کو نبی یا رسول ثابت کرنے کی کوشش کرے، وہ اسلامی تعزیر کا مستحق ہےlsquo جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حکومتِ وقت اس شخص کو عمر قید کی سزا دے یا اس کے شکوک وشبہات دور کرکے سچی توبہ کروا کر پھر آزاد کرے۔ اگر پھر بھی وہ شخص اپنے باطل نظریہ سے باز نہ آئے تو حکومت تعزیراً اسے قتل بھی کرسکتی ہے تاہم ٹھوس شواہد کی موجودگی شرط ہے۔ الغرض جو لوگ کنفیوشس اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات وافکار کا تقابلی جائزہ پرنام نہاد تحقیق کرکے کنفیوشس کو نبی ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں انہیں اپنے عقیدہ اور آخرت کو سامنے رکھنا چاہئےlsquo خدانخواستہ لغزش کھا کر غیر نبی کو نبی بنانے کی کوشش میں کہیں نبی اکرم ،شفیع اعظم صلی الله علیہ وسلم کی امت میں ہونے کے شرف سے محروم نہ ہوجائیں اور ہمارے مسلمان نام نہاد بزعم خویش و بشمول خود روشن خیال طبقہ کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہئے کہ ڈیڑھ دو ہزار سال پرانے خود تخلیقی فلسفہ کے حامل افراد کو نبی ثابت کرنے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ ہم آقائے نامدار صلی الله علیہ وسلم کے دامنِ شفاعت سے چمٹ کر اپنے آپ کوسچا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راست یابی کا سرمایہٴ گراں مایہ نصیب فرمائے آمین الجواب صحیح کتبہ محمد عبد المجید دین پوری رفیق احمد بالاکوٹی بینات جمادی الاخری ۱۴۲۶ھ ،۲۰۰۵ء جلد : ۸،شمارہ :۶ حوالہ جات ________________________________________________________________________ ۱ ملاحظہ ہو مذاہب عالم تالیف احمد عبداللہ، بدھ مت ،عنوان: بدھ متیوں کے ساتھ عیسائیت کی مماثلت ۔ص: ۹۰ اور کنفیوشی مت،ص: ۲۱۷،تا،۲۳۴ نیز ص:۱۵، ط:مکی دار الکتب لاہور، جنوری ۲۰۰۲ء۔


فتوی نمبر : 143101200114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں