بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جب فتووں میں اختلاف ہو تو کس قول پر عمل کیا جائیگا؟


سوال

السلام عليكم و رحمة الله وبركاتهدو مفتیان کرام کے فتوی میں تضاد ہو توکس پر عمل کرنا چاہیے اور کیوں؟مفصل جواب درکار ہے اور اگر صحابہ رضی الله عنھم کے دور کا کوئی واقعہ ہو تو بھی تحریر فرما دیں ۔جزاك اللهُ خيراً‎‎

جواب

جب کسی مسئلہ میں مفتیان کرام کی آراء کا اختلاف ہوجائے تو عام آدمی کس رائے کو اور کیوں اختیار کرے اس کی تفصیل یہ ہے کہ اوّلا توجس قول کو دلائل کی رو سے قوّت حاصل ہو اس کواختیار کیا جائےگا، اگر یہ ترضیح کی کوئی صورت نہ ہو تو پھر جس طرف جمہور اہل علم کا رجحان ہو اس قول پر عمل کرے، اگر دونوں رائے کے قائلین کی تعداد یکساں ہو تو پھر دونوں میں سے جن کے علم وتقوی پر اس کو زیادہ اعتماد ہو اور عام حالات میں بھی ان ہی کی رائے پر عمل کرتا ہو تو ان کی رائےکو لینا لازم ہوگا، اور بالفرض دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر علم وتقوی میں فضیلت یا فوقیت دینے سے عاجزہو تو پھر اس رائے کو اختیار کرے جس میں احتیاط زیادہ ہو مثلاایک جانب وجوب کا قول ہو اور دوسری جانب استحباب کا تو وجوب والی رائے پر عمل کرے یا ایک جانب حرمت کا فتوی ہو اور دوسری جانب گنجائش کا تو حرمت والی رائے اختیار کرےگا۔ صحابہ کرام کے دور میں اس کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں، مثلا قرات خلف الامام کا جواز وعدم جواز، نبیذ کی حرمت وحلت، بنو قریظہ کا مشہورواقعہ جب صحابہ کرام کو حضور ﷺ نے وہاں پہنچ کر نماز عصر کی ادائیگی کا کہا تھا، راستہ میں جب نماز قضاء ہونے کا خدشہ ہوا تو بعض نے اصل علت کو سامنے رکھ کر راستہ ہی نماز پڑہ لی اور بعض نے ظاھری الفاظ کو دیکھتے ہوئے نماز قضاء ہوجانے دی ، بعد میں جب حضور ﷺ سے پوچھا گیا تو دونوں کی تصویب فرمائی۔ اس واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ علماء کی آراء کے اختلاف کو نزاع کا باعث بنانا درست نہیں بلکہ اس اختلاف میں بھی امت کے لئے سہولت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143502200024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں