بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی بینکاری ایک اشکال کا جواب


سوال

میں یہ سوال کرنا چاہتاہوں کہ آجکل اسلامک بینکنگ کے حوالے سے علماء کے طبقے میں جو دو مختلف آراء سامنے آرہی ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟کیا اس حوالے سے ابتداء میں علماء نے آپس میں مل بیٹھ کر ایک متفقہ لا ئحہ عمل طے نہیں کیا تھا یا پھر اس حوالے سے ہمارے علماء کی تحقیق مکمل نہیں ہو سکی اس لیے کہ عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ کس کی بات پر عمل کریں مزید یہ کہ کیا اب کوئی ایسی صورت موجود ہے جس کے ذریعے سے علماء باہم مل بیٹھ کر ایک متفقہ لائحہ عمل سامنے لاسکیں تاکہ عوام کی پریشانی کم ہو سکے۔ازراہ کرم تسلی بخش جواب دے کر مشکو ر فرمائیں جزاکم اللہ

جواب

ج:۔ مروجہ اسلامک بینکنگ شروع کرتے ہوئے اہل علم کی کوئی ایسی مشاورتی مجلس منعقد نہیں ہوئی تھی جس کی قرارداد اورسفارشات کو متفقہ لائحہ عمل کہا جاسکے۔ باقی مروجہ اسلامی بینکاری کے عدم جواز کا موقف اس وقت سے چلا آرہا ہےجب سے اسلام کی طرف منسوب بینکاری کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ہمارے اکابرنے ہمیشہ ایسی کوششوں کااسلام سے زیادہ بینک کی وفاداراور علمبردارقراردیتے ہوئے ناجائزہی کہا ہے،چند سال سے بعض اہل علم ان کوششوں کو شریعت سے ہم آہنگ قراردیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان کی تائید فرمارہے ہیںبلکہ ان بینکوں کے معاملات میں شریک کاربھی بنے ہوئے ہیں،ان کے موقف اور دلائل کے بارے میںانہی سے معلوم کیا جائے،کیونکہ اختلاف کی ذمہ داری ہم سے زیادہ ان پر عائد ہوتی ہے۔ باقی مل بیٹھ کرکسی بھی اختلافی مسئلے کو حل کرنے کے لیےہمارا ادارہ ہمیشہ سنجیدہ رہا ہے،اور اب بھی اسی موقف پر قائم ہے،جوبھی اہل علم اورارباب فتویٰ تفردوشذوذسےبچنے کی خاطر متفقہ لائحہ عمل اور اتفاقی رائے کے لیے کہیں بھی جمع ہونا چاہیں ،ہماراادارہ حاضر ہے۔ اگر یہاں کوئی تشریف لانا چاہے تو ہمارے دروازے ہر وقت ہر کسی کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس موضوع پر جامعہ بلکہ ملک بھر کے علماء کا متفقہ فتویٰ طبقعت کے مراحل میں ہے اور انشاء اللہ عنقریب منظرعام پر آجائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں