بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی تاریخ پیدائش ووفات میں راجح قول


سوال

محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب پیدا ہوئے اس وقت اسلامی اور انگریزی دن اور تاریخ کیا تھا؟ کیا اختلاف ہے اور کبارعلماء کرام کے درمیان پسندیدہ کی کیا رائے ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب انتقال کرگئے اسلامی اور انگریزی دن اور تاریخ کیا ہے؟ کیا اختلاف ہے اور کبارعلماء کرام کے درمیان پسندیدہ کی کیا رائے ہے؟ ایک شخص کو مندرجہ بالا تاریخوں پر کیا کرنا چاہیے، صحابہ وغیرہ نے کیا کیا؟ حوالہ کے ساتھ جواب فراہم کریں!

جواب

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں تشریف لائے اس وقت تاریخ ضبط کرنے کا اس قدر اہتمام نہیں ہوتا تھا جیساکہ مابعد کے زمانے میں اسلامی مؤرخین نے شروع کیا، بلکہ اس وقت کسی مشہور واقعے یا عموماً مہینے کے اعتبار سے تاریخ ذکر کردی جاتی تھی، ورنہ تقریبی طور پر تاریخ لکھ دی جاتی تھی، یہ تو اسلام آنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ کرام رحمہم اللہ نے احادیثِ نبویہ کے ذخیرے کی حفاظت کی خاطر کامل ضبط و اتقان کے ساتھ ہر چیز کو مرتب و محفوظ کیا، اسی کے نتیجے میں مشہور شخصیات کے حالاتِ زندگی، تاریخِ پیدائش و وفات اور دیگر واقعات مکمل ضبط و تصحیح کے ساتھ محفوظ کیے جانے لگے، اس کے باوجود بھی آج تک مشہور شخصیات کی تاریخِ پیدائش اور وفات میں اختلاف دیکھا جاتاہے۔

بہرحال حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں  کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی، (اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے)۔

اسی طرح تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے، مشہور قول کی بنا پر 12 ربیع الاول سن11 ہجری بروز پیر کو وفات ہوئی، لیکن تحقیق کے مطابق یہ قول درست نہیں ہے۔ بعض نے یکم ربیع الاول کو اور بعض نے 2 کو تاریخ وصال قرار دیا ہے، علامہ سہیلی نے روضۃ الانف میں اور علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ اس دن کیا عمل کرنا چاہیے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین رحمہم اللہ کے ادوار (یعنی خیر القرون) میں یومِ پیدائش و وفات دونوں دنوں سے متعلق کوئی خاص عمل منقول نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143503200007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں