بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حیاء کے معنیٰ کی وضاحت


سوال

برائے کرم مجھے حیا کے بارے میں تفصیل سے بتائیے؟اگر جلد جواب عنایت کریں تو نوازش ہوگی۔

جواب

اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات بناکر فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی  کو دیکھا جو اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو آپ ﷺ نے سنا تو ارشاد فرمایا : دعہ فان الحیاءمن الایمان ۔ (مشکوة -2-431) ترجمہ : اس کو چھوڑدو کیونکہ حیاء ایمان کا جز ء ہے۔ دوسری حدیث میں ہے : الحیاء لا یاٴ تی الا بخیر وفی روایة الحیا ء خیرکلہ ۔(2-421) ترجمہ : حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر خیر ہے ۔گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی ۔حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : الحیاء من الایمان والایمان فی الجنة والبذآء من الجفآءٰ فی النار۔(مشکوة۔431) ترجمہ : حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے ۔ حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ فرمایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فجآتہ احدٰ ھما تمشیی علی استحیآء ۔(سورة القصص ۔25) ترجمہ : اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتاروگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد مبارک ہے : الحیآ ء شعبة من الایمان ۔( مشکوٰة۔12) لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اذالم تستحیی فاصنع ما شئت ۔(مشکوٰة ۔431) ترجمہ : جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطہ ٴ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی شترِ بے مہار کے طرح ہوتی ہے ۔حیاء ہی وہ صفت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتاہے لہٰذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ حیاء کی صفت کو اپنانے کی مکمل کوشش کریں تاکہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں